• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عجیب قسم کے لوگوں نے روحانی اور سائنسی دنیا کو ایک دوسرے کےسامنے لاکھڑا کیا ہے اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں کالی کردی ہیں جبکہ میرے نزدیک یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ اور ایک ہی دنیا کے دو روپ ہیں جیسے برف اور بھاپ پانی کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ روحانی اور مادی دنیا بھی ایک ہی ہے کہ جس نے ’’روح‘‘ تخلیق کی ’’مادہ‘‘ بھی اسی کا معجزہ ہے۔

زندگی نام ہے ’’سہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کے بے کراں سلسلے کا کہ اللہ کا نائب اس کی پہلیاں نہ بوجھے گا تو کیا شیر، چیتے، مگر مچھ، شارک مچھلی، چیلیں، گدھ یہ عظیم کام سرانجام دیں گے؟ ہرگز نہیں کہ دراصل یہی کام تو اشرف المخلوقات کے کرنے والے ہیں لیکن یہ سچ مچ کے اشرف المخلوقات کا کام ہے اور ان کی فقط ’’فوٹو کاپیاں‘‘ ایسی ہر ذمہ داری سے فارغ ہیں۔

غالب یونہی نہیں کہتا کہ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘۔ یہ علیحدہ بات کہ ایسے ’’غیبی مضامین‘‘ ہر للوپنجو کے خیال میں نہیں آتے کہ قدرت بھی منہ اور مانگ بلکہ منگتا دیکھ کر ہی کچھ عطا کرتی ہے یعنی . . . ..

’’ترے دوار کھڑا اک جوگی

ناں مانگے یہ سونا چاندی مانگے درشن تیرے

تیرے دوار کھڑا اک جوگی‘‘

اور پھر خالق و مالک و رازق کسی نہ کسی عظیم ’’دریافت‘‘ کی شکل میں منگتے کو اپنا درشن عطا فرماتا ہے۔ لگانے والے کو ملے نہ ملے، مانگنے والے کو ضرور ملتا ہے۔ انسان نے ایجاد تو کیا کرنا ہے، وہ تو صرف ’’دریافت‘‘ کیا کرتا ہے اور پھر انہی دریافتوں کے نتیجہ میں ایجادات جنم لے کر انسانی تاریخ کے رخ ہی نہیں، پیمانے، معیار، ترجیحات تک تبدیل کرتے ہوئے ثقافتوں کو بھی تہہ و بالا کردیتی ہیں اور آج یہی کچھ ہو رہا ہے۔

کیا مغل اعظم جلال الدین اکبر کے محل میں کوئی ٹی وی لائونج تھا؟

تب ’’فیل خانے‘‘ اور ’’ اسپ خانے‘‘ ہوتے تھے، اب گاڑیوں کے لئے گیرج، پورچ ہوتے ہیں۔

ابھی کل تک فون لگوانے کے لئے تگڑی سفارش درکار تھی اور آج؟ مدت ہوئی نہ گڈا دیکھا ہے نہ ہل اور نہ کبھی کوئی مشک اور ماشکی کہیں نظر آیا۔ اسے بھی روحانیت کا پرتو ہی سمجھیں گے تو سنبھلیں گے ورنہ سچ تو یہ کہ اصل مقابلہ تو گنتی کی صرف چند قوموں کے درمیان ہے جبکہ باقیوں کی حیثیت تماشائیوں بلکہ تماش بینوں، نقالوں اور بینی فشریز سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

اگر زندگی تاموت سبھی کچھ اس کی عطا ہے تو ان دو کے درمیان بھی سبھی کچھ اسی کی عطا ہے۔ کسی کو عقل دے یا دماغی خلل دے اور وہ دیتا ہے لیکن صرف ان کو جو عجز و انکسار وارفتگی سے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ ’’دریافت‘‘ کرنا انسانی کمال کی معراج ہے جو چلتے پھرتے ’’معدوں‘‘کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ غیب سے مضامین خیال میں لانے کے لئے اک خاص قسم کی تپسیا درکار ہے چاہے علم ہو، کوئی آرٹ ہو یا ہنر۔ ALBERT SZENT FYORGYIکو فزکس میں نوبل پرائز ملا تھا۔ اس نے ’’دریافت‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا۔

دریافت یہ ہے کہ آدمی اس چیز کو دیکھے جس کو سبھی نے دیکھ رکھا ہو مگر اُسے دیکھ کر وہ ایک ایسے خیال تک پہنچ جائے جس کو کسی نے پہلے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔

"DISCOVERY CONSISTS OF SEEING WHAT EVERYBODY HAS SEEN AND THINKING WHAT NOBODY HAS THOUGHT BEFORE."

کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ بھاپ سے اچھلتے ڈھکن کو ان گنت لوگوں نے دیکھا لیکن بھاپ کی طاقت کو استعمال میں لانے کا خیال صرف ایک شخص کو آیا۔ سیب وغیرہ گرتے ہزاروں کروڑوں سال سے دیکھ رہے تھے لیکن ٹھٹکا اور سوچ میں پڑانیوٹن . . . . تو یہاں مجھے چینیوں کا اک محاورہ یاد آتا ہے۔ سبحان اللّٰہ

’’سچے علم کا نزول صرف پاکیزہ دلوں پر ہوتا ہے‘‘

کیا ان جہانوں، ان کائناتوں میں کوئی ایسی شے ہے جو خالق کی تخلیق نہ ہو؟تو پھر اس پر غور و فکر،تحقیق سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ خالق کی کسی تخلیق کو سوچنا، سمجھنا، جاننا، بوجھنا مخلوق کو اس کے قریب کرکے صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے مقام تک لے جاتا ہے جبکہ غیر مصدقہ فوٹو کاپیوں کو تو کوئی کلرک بھی قبول نہیں کرتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین