• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم بنا کر سب کو حیران کر دیا ہے، ایک فیصلے سے بڑے بڑے سیاسی بت ٹوٹ گئے۔ اس سے پہلے یہی کچھ گلگت بلتستان میں ہوا، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسا ہی ہوا۔

عمران خان سیاسی بتوں کو توڑنا پسند کرتا ہے، اس نے پاکستان میں مضبوط ترین سیاسی بتوں کو توڑ کر اُنہیں بےبسی کی جھولی میں ڈال دیا، وہ کام جو پرویز مشرف پوری طاقت سے نہ کر سکا، عمران خان نے ولولے سے کردکھایا۔ سیاست کے انفرادی بتوں کو پچاس برس پہلے بھٹو نے عوامی طاقت سے توڑا تھا مگر پھر اُنہوں نے پلٹ کر اتنی جلدی وار کیا کہ 77میں بھٹو اُن کےحصار میں تھا۔ خیر یہ پرانی باتیں ہیں حال کی بات کرتے ہیں اور سب سے پہلے کشمیر کی بات کرتے ہیں۔

سردار عبدالقیوم نیازی آزاد کشمیر کے تیرہویں وزیراعظم کا حلف اُٹھا چکے ہیں۔ اُن کی نامزدگی سے پہلے سرگوشیاں ہوئیں، سفارشیں ہوئیں، سفارشوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا، انٹرویو ہوئے، اس دوران سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے نظر آئے۔ کسی نے لفظ عین کا تذکرہ کیا اور کہا کہ آزاد کشمیر کے اگلے وزیراعظم کا نام ع سے ہوگا کیونکہ اس سے پہلے صدر عارف علوی، سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سمیت وزیراعظم کا اپنا نام بھی ع سے شروع ہوتا ہے۔

دوستوں کی محفل میں بات چھڑی تو میں نے عرض کیا کہ اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو اس کا جواب کون دے گا کہ پنجاب میں عبدالعلیم خان، عثمان بزدار سے مضبوط امیدوار تھے، ان کے نام میں ع دو مرتبہ آتا ہے، پھر خیبر پختونخوا میں عاطف خان کو نظر انداز کرکے محمود خان کو کیوں وزیراعلیٰ بنایا گیا؟ کے پی میں شاہ فرمان کو گورنر بنایا گیا، وہاں علی محمد خان کو بھی بنایا جا سکتا تھا، پنجاب میں چودھری سرور کی جگہ کسی عین والے کو بنا دیا جاتا۔

یہ فارمولہ بلوچستان میں بھی آزمایا جا سکتا تھا۔ اگر عین اتنا ہی ضروری تھا تو گلگت بلتستان میں راجہ جلال کو گورنر اور خالد رشید کو وزیراعلیٰ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس گفتگو کے بعد ایک دوست بولا ’’... تو پھر روایات سے ہٹ کر فیصلے کیوں کئے گئے؟...‘‘ اس سلسلے میں عرض کیا کہ عمران خان اقتدار کو پسماندہ ترین علاقوں میں لے جانا چاہتا ہے اسی لئے وہ علاقوں، گروپوں اور برادریوں کےبتوں کوپاش پاش کر رہا ہے۔ مثلاً پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے بڑے شہروں سے بڑے گروپوں اور برادریوں سے بڑے مضبوط امیدوار تھے مگر عمران خان نےسب کو نظر انداز کرکے تونسہ سے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ خیبر پختونخوا کےلوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی ان کا وزیراعلیٰ سوات سے ہوگا۔ وہاں کے طاقتور سیاسی لوگ پشاور ویلی، ڈی آئی خان یا ہزارہ سے ہیں۔ تحریک انصاف میں طاقتور لوگوں کاتعلق وادی پشاور کے اضلاع یا پھر جنوبی اضلاع سے ہے اس صوبے میں بھی طاقتوروں کو نظر انداز کرکے مٹہ سوات سے محمود خان کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ گلگت بلتستان میں مضبوط سیاست دان چھوڑ کر خالد خورشید کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ ضلع استور سے پہلا وزیراعلیٰ بنا، اس سے پہلے استورسے کبھی وزیراعلیٰ نہیں بنا تھا۔ خالد خورشید کاتعلق ضلع استور کی تحصیل شونٹر سے ہے۔ ایسا ہی آزاد کشمیر میں کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو برادریوں، تجربے اور دولت کی بنیاد پر اندازے لگائے جانے لگے۔ کسی نے برادری اورسیاست کی بنیاد پر بیرسٹر سلطان محمود کا نام لیا، کسی نے دولت کی بنیاد پر سردار تنویر الیاس کا ذکر کیا، سیاسی تجربہ کار کے طور پر خواجہ فاروق کا تذکرہ ہوا، برادری، ووٹ اور فوج میں رشتے داریوں کی وجہ سے چودھری انوار الحق کا نام بھی لیا گیا مگر وزارتِ عظمیٰ کا قرعہ سردار عبدالقیوم نیازی کے نام نکلا۔ قیوم نیازی ضلع پونچھ کی تحصیل عباس پور کے ایک گائوں درہ شیر خان کے رہنے والے ہیں۔ یہ گائوں کنٹرول لائن پر واقع ہے۔ سردار عبدالقیوم نیازی کا خاندان 1947سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں تھا۔

یہ خاندان 1947سے پہلے ہی مسلم کانفرنس میں تھا، اس لئے 2019تک مسلم کانفرنس سے منسلک رہا۔ عبدالقیوم نیازی کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ مغل 1985میں وزیر مال تھے۔ انہوں نے 1975میں سنہہ میں آٹے کی مل بنائی۔

گوجرانوالہ میں رائس مل پھر ڈیری فارم بنایا، اب ان کاڈیری فارم دینہ کے پاس ہے۔ یہ آزاد کشمیر کے لوگوں کوسستے جانور اور دودھ فراہم کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم ماضی میں سردار عتیق احمد خان کی کابینہ میں وزیر خوراک تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو انٹرویو کے دوران سردار عبدالقیوم نیازی نے بتادیا تھا کہ ... ’’میں عباس پور سے مغل سردار ہوں، میرا تعلق مغلوں کے قبیلے دُلی سے ہے، نیازی میرا تخلص ہے، میٹرک کا داخلہ بھیجتے وقت دو لڑکوں کے نام عبدالقیوم تھے، میں نے تخلص کے طور پر نام کے ساتھ نیازی لکھ دیا...‘‘۔

عباس پور اور دُلی مغلوں کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ عباس پور کا نام گوپال پور تھا، رئیس الاحرار مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس کے نام پر اسے تبدیل کیا گیا۔ اب یہ عباس پور ہی مشہور ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں ہمیشہ ہی سے مغلوں کی چار پانچ نشستیں رہی ہیں کیونکہ یہاں مغلوں کے کئی قبیلے آباد ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی سری نگر کی ڈل جھیل کے پاس نشاط باغ اور شالیمار باغ مغلوں کی نشانیاں ہیں۔ رہے دُلی مغل تو آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ قومی اسمبلی کےسابق اسپیکر سردار ایاز صادق کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔

آزاد کشمیر کے نئے وزیر اعظم انتہائی محنتی، ملنسار اور خدمت گار سیاستدا ن ہیں، پابند صوم و صلوٰۃ ہیں، ان کی شرافت پورے علاقے میں مشہور ہے، ان کے صاحبزادے سردار ضرار قیوم سنٹرل لندن سے لیبر پارٹی کے کونسلر ہیں، یہ خاندان کم از کم 80برسوں سے سیاست کر رہا ہے کہ بقول میر انیسؔ ؎

عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں

تازہ ترین