• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تم جو لنڈے کی پچاس روپے والی شرٹ خریدنے کیلئے چالیس ریڑھیاں چھان مارتے ہو، ﷲ جانے حکمران چنتے وقت تمہیں کیا ہو جاتا ہے، تمہاری عقلیں کیوں ماری جاتی ہیں اور تم شریفوں، زرداریوں اور خانوں کو اپنا حکمران بناکر اپنے تئیں یہ کیوں سمجھ لیتے ہو کہ اب کوئی ایسا آ گیا ہے جو تمہاری محرومیوں کا مداوا کرے گا اور تمہاری زندگیوں کو بدل کر رکھ دے گا؟ ووٹ ڈالتے ہوئے تمہیں یہ شائبہ تک نہیں ہوتا کہ تمہاری مرضی کا بندہ ووٹ کی طاقت سے مسندِ اقتدار تک نہیں جائے گا کیونکہ وہاں پہنچنے کے ذرائع اور ہیں، راستے مختلف ہیں اور پاکستان ہو یا آزاد کشمیر کے انتخابات یہاں نہ ووٹ چلتا ہے اور نہ نوٹ بلکہ یہ سارا کچھ الیکشن سے قبل طے کر لیا جاتا ہے۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ اور یہ الیکشن ولیکشن تو بس شوشا کیلئے کروائے جاتے ہیں تاکہ تم جیسے تھوڑا بہت ہلا گلا کر لیں، تم جو خود کو انسان کہتے ہو تمہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ لوگ تمہاری حالت کبھی نہیں بدلیں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر تمہاری قسمت بدل گئی تو ان کی اپنی تقدیر کا سورج گہنا جائے گا، اس لئے تمہیں خود ہی اس حقیقت کا اداراک کرنا ہوگا کہ تم اندھوں، گونگوں، بہروں کی طرح موت کی طرف تیزی سے بھاگ رہے ہو اور تم اپنی غیرت و شرم کے اس قدر دشمن بن چکے ہو کہ تمہارے ہی بچے اغوا ہو رہے ہیں، گڑوں میں گر کے مر رہے ہیں، تمہاری ہی معصوم بچیوں کی عصمت دری ہو رہی ہے، تمہاری ہی بہن بیٹی پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے اور یہی بےکس و لاچار تیل کے چولہوں و گیس کے سلنڈروں سے جل مر رہی ہیں، تمہارے ہی بچوں کو دینی تعلیم دینے کے بہانے خودکش جیکٹس پہنا کر موت کا ایندھن بنایا جا رہا ہے لیکن تم کب تک گنگ رہو گے اور ملک و قوم کے اصل دشمن کو جان کر بھی اِس نانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھائو گے؟

حالت یہ ہے کہ تم جو اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہو، جو ہر طرح کی اشرافیہ کو شہ نشینوں پر بٹھاتے ہو، اپنی شب و روز کی محنت سے انہیں محلات تک پہنچا کر خود روٹی، کپڑا اور مکان کو ترستے ہو، اپنے نان و نفقہ کے حصول کی خاطر تمہارا خون پسینہ بھی تمہیں ایک وقت کی روٹی اور صاف پانی تک نہیں دے سکتا، تمہارا بچہ بیمار ہو جائے تو دوا کیلئے تمہاری جیب میں چند روپے بھی نہیں ہوتے اگر ہوں تو بھی دوا کے نام پر زہر ملتا ہے لیکن تم سب جانتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہو، تم تو اپنے بچوں کو اسکول تک نہیں بھجوا سکتے لیکن وہ جن کے لئے تم نعرے لگاتے ہو، لائنوں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالتے ہو، ان کے بچوں کا برطانیہ، امریکہ اور یورپ کی مہنگی و بہترین درسگاہوں میں داخلہ ہوتا ہے اور پھر اشرافیہ کے یہی بچے ’باہر سے‘ پڑھ کے آتے اور تم جیسوں کی گردنیں دبوچ لیتے ہیں کیونکہ یہی فارن ریٹرن سیاست دان، نوکر شاہی اور ڈسکریشن پاور رکھنے والے اداروں کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں لیکن آفرین ہے تم پر کہ تم اس قدر ڈھیٹ ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ فقط چند پیسوں کی خاطر پھر نعرے لگانے اور بکنے کیلئے تیار ہو جاتے ہو۔ تمہارا یہ وتیرا نسل در نسل جاری ہے، تمہارے اندر سے کمتری اور غلامی کے جراثیم ختم ہی نہیں ہوتے۔ تم اِس قدر ڈھیٹ اور نافرمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان کو بھی نہیں مانتے کہ ’’سب انسان برابر ہیں‘‘۔ دولت و ثروت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر فوقیت حاصل نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ آسمانی خدا اور زمین پر خدا کہلوانے والے تمہاری ناگفتہ بہ حالت نہیں بدلتے۔

چلو، اگر تمہیں میری معروضات اور کڑوی کسیلی باتوں سے اتفاق نہیں تو ٹھیک ہے اگر تمہیں یہ وہم ہے کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے تم حیلہ بھی نہ کرو گے اور وہ تمہارے لئے وسیلہ بنا دے گا یا کوئی من و سلویٰ تم پر اتارے گا تو یہ سراسر تمہارا وہم ہے، تم یہ بھی سوچتے ہو کہ تم جو بدبودار، تعفن زدہ کالونیوں کے باسی ہو، تم جو اینٹوں کے بھٹوں پر غلاموں کی طرح مزدوری کرتے ہو اور تم جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہو اور اشرافیہ کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کو اپنے بھوکے شکموں میں انڈیلتے اور اپنے بچوں سے ہونے والی ظلم و زیادتی حتیٰ کہ انہیں قتل تک کر دینے پر خاموش رہتے ہو اور ’ان طاقتوروں‘ کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ حیثیت نہیں کہ تم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکو یا سوال کی جرأت کر سکو اور تم اس بات پر 100فیصد راضی ہو کہ زندہ ہو کر بھی مُردوں کی طرح جینا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہی تمہاری تقدیر ہے اور تم اسے اپنے ہاتھوں بدل نہیں سکتے اور اس ملک کے ثمرات پر انہی اکڑی ہوئی گردنوں کا حق ہے تو پھر تمہیں کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی تمہیں بچانے کے لئے ابابیلوں کے لشکر آسمانوں سے اُتریں گے لہٰذا طے ہوا کہ تمہیں یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح بےکسی و بےبسی کی حالت میں مرنا ہے تو یونہی سہی لیکن مرنے سے پہلے جناب قتیل شفائی کی کہی یہ چند لائنیں ضرور پڑھ لو

وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا


ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا

گھر والوں کی غفلت پہ سہی کوس رہے ہیں

چوروں کی مگر کوئی ملامت نہیں کرتا

دیتے ہیں اجالے میرے سجدوں کی گواہی

میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا

بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی

میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

دُنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

تازہ ترین