• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں سردار عبدالقیوم نیازی بالآخر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں ویسے تو وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں سردار تنویر الیاس، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، خواجہ فاروق اور چوہدری انوار الحق شامل تھے۔ سردار تنویر الیاس جس تیزی سے آزاد کشمیر کے سیاسی افق پر ابھرے تھے ان کے بارے میں یہ بات برملا کہی جا رہی تھی کہ وہ با آسانی آزاد جموں کشمیر کے 13ویں وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے کیونکہ ان کو نہ صرف آزاد کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے والوں کی تائید و حمایت حاصل تھی بلکہ انہوں نے آزاد کشمیر میں تیز رفتاری سے اپنے گرد سیاسی ہجوم بھی اکھٹا کر لیا تھا لیکن ہما سردار عبدالقیوم نیازی کے سر پر جا بیٹھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی نہیں بلکہ دُلی مغل ہیں۔ سردار عتیق احمد خان اور سردار عبدالقیوم مدینہ منورہ یونیورسٹی میں اکھٹے زیر تعلیم تھے اور ہوسٹل میں ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ سردار محمد عبدالقیوم خان کا ملکی سیاست میں طوطی بولتا تھا سردار عبدالقیوم، سردار محمد عبدالقیوم کے ہم نام ہونے کی وجہ سے کنفیوژن رہتا تھا تو سردار عتیق احمد خان نے سردار عبدالقیوم کو ’’نیازی‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تو ’’نیازی‘‘ ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی آزاد کشمیر میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے خود بھی حیرت کا اظہار کیا کہ آزاد جموں کشمیر میں ’’نیازی‘‘ کہاں سے آگئے؟ انہیں بتایا گیا کہ سردار عبدالقیوم ہیں تو دُلی مغل لیکن ’’نیازی‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں پھر وزیراعظم عمران خان کو عبدالقیوم نیازی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ ان کو آزاد کشمیر کی وزارتِ عظمیٰ کا تخت بخش دیا۔ سردار عبدالقیوم نیازی ’’ڈارک ہارس‘‘ کی مانند رونما ہوئے، انتخابی مہم میں موٹر سائیکل پر جلوس کی قیادت کرنے والے دراز قد سیاست دان کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چند روز بعد اس کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجا دیا جائے گا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے سابق امیر سردار عبد الرشید ترابی نے سردار تنویر الیاس کی حمایت کا بڑا سیاسی فیصلہ تو کر دیا لیکن جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے ان کی 40سالہ رفاقت کی پروا کئے بغیر جماعت کی رکنیت ختم کر دی۔ سردار تنویر الیاس جو آزاد جموں کشمیر کے انتخابات میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے، ان کے وزیراعظم بننے کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی، انہوں نے دن رات محنت کرکے پی ٹی آئی میں ’’الیکٹ ایبل‘‘ اکھٹے کر لئے تھے اور دوسری طرف پارٹی کے صدر بیرسٹر سلطان محمود جنہوں نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا مسلسل 9ویں مرتبہ رکن منتخب ہونے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول کے لئے کوشاں تھے، ان کا موقف تھا کہ وہ پارٹی صدر ہیں، ان کی صدارت میں پارٹی نے آزاد کشمیر میں کامیابی حاصل کی ہے، وہ پہلے بھی وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے حصول کی جنگ نے وزیراعظم عمران خان کو کشمیر کے ’’نیازی‘‘ کو وزیراعظم بنانے پر مجبور کر دیا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی اپوزیشن نے آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا بلکہ سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کامیابی پر شادیانے بجا رہی ہے لیکن اپوزیشن یہ کامیابی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، اس کا مؤقف ہے 6لاکھ ووٹ حاصل کرکے پی ٹی آئی نے 26نشستیں حاصل کر لیں جب کہ 5لاکھ ووٹ حاصل کرنے پر مسلم لیگ (ن) کو 6نشستیں دی گئیں، پیپلز پارٹی کو تین لاکھ ووٹوں پر 10نشستیں عطا کر دی گئیں، آزاد کشمیر کے بیس کیمپ میں حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں کم و بیش برابر ہیں لیکن پی ٹی آئی نے پاکستان میں جموں اور وادی کی 12میں سے 9نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا لی۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں وفاق میں برسر اقتدار پارٹی کی ہمیشہ یہ کوشش بھی رہی ہے کہ آزاد کشمیر و گلگت و بلتستان میں ان کی پارٹی کی حکومت بنے۔ گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کوئی قابلِ ذکر نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی، عام انتخابات کا طبل بجنے تک پی ٹی آئی کے پاس قابلِ ذکر ’’الیکٹ ایبل‘‘ بھی نہیں تھے۔ پھر پوری پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبل کی فوج ظفر موج آ کھڑی ہوئی، عام انتخابات میں جس طرح پیسے کا استعمال ہوا، اس کا اندازہ اس وڈیو کے وائرل ہونے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک وفاقی وزیر بھرے جلسے میں روپے تقسیم کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی شخص آزاد کشمیر میں پری پول رگنگ اور پیسے کے استعمال سے انکار کرے ۔

تازہ ترین