• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شرمندگی،شرمندگی اور شرمندگی۔ مگر کس کے لئے؟ قوم کیلئے تو شاید ہو،حکمرانوں کے لئے بالکل نہیں۔ لگتا ہے ان کی وہ حس ہی مر گئی ہے،شرمندگی جو محسوس کر سکے کہ یہ صرف احساس کی بات ہے۔کوئی ایک سانحہ نہیں ہے جو اس قوم پر گزرا ہو اور حکمرانوں نے شرمندگی محسوس کی ہو۔ تازہ ترین اسامہ بن لادن کمیشن کی رپورٹ ہے کہ عرق ِندامت ٹپکا پڑتا ہے۔رپورٹ میں، حساس لوگوں کی شرمندگی کیلئے، بہت سا مواد اکٹھا کردیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ شرمندگی کی بات رپورٹ کی اشاعت ہے۔ حکومت ابھی قوم کو جھوٹے سچے وعدوں سے بہلا ہی رہی تھی کہ پوری رپورٹ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے حاصل کی اور اپنی ویب سائٹ پر ساری دنیا کو فراہم کردی اور ہم اس وعدے کے وفا ہونے کا انتظار ہی کرتے رہے کہ رپورٹ جلد ہی قوم کے سامنے پیش کردی جائے گی۔رپورٹ تو فروری میں تیار ہو گئی تھی۔گزری حکومت نے عوام کو اعتماد میں لیا، نہ نئی نے۔ رپورٹ دبائے بیٹھے رہے۔ وہ بیٹھے رہے ، رپورٹ مگر نکل گئی۔ اس رپورٹ کی اشاعت ایک مسلسل شرمندگی کا حصّہ ہے۔2 مئی2011ء اس کی انتہا تھی۔ امریکی ایک رات درّاتے ہوئے پاکستان میں گھسے، دو ڈھائی گھنٹے تک ان کے کمانڈو…وہ انہیں سیل کہتے ہیں اور ہیلی کاپٹر کارروائی کرتے رہے اور اُسامہ کو قتل کر کے لاش اپنے ساتھ لے گئے۔یہاں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔قوم کو اطلاع امریکیوں سے ملی جب انہوں نے واشنگٹن سے اعلان کیاکہ اُسامہ کو پاکستان میں تلاش کر کے قتل کردیا گیا ہے۔ اس شرمندگی کا ایک حصہ ذرا پیچھے کئی سال پر محیط ہے۔اُسامہ کو ایبٹ آباد میں تلاش کیا گیا۔ یہ کام ایک دو دن میں نہیں ہوا،کئی سال ،کئی مہینے لگے۔اِس دوران امریکی یہاں بہت کچھ کرتے رہے۔ پولیو کے ٹیکے لگانے کی جعلی مہم شروع کی،علاقے میں یو ایس ایڈ کا دفتر کھولا۔ (آج تک پتہ نہیں چلا کہ یو ایس ایڈ والے جاسوسی کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں)۔ اپنے خفیہ اڈے بنائے۔ امریکی جاسوس اِس علاقے میں جو چھاؤنی ہے اور جہاں قریب ہی فوج کی ایک اکیڈمی ہے، کافی عرصہ تک اپنی کارروائیاں کرتے رہے اور بالآخر بقول ان کے، اُسامہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ سلامتی کی ذمہ داری کے دعویدار اداروں کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوتا رہا، طویل عرصہ تک، انہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ یوں ان کے دعوے بہت ہیں اور پاکستانیوں کے خلاف کارروائیاں بھی کم نہیں مگر اس معاملے میں ان کی کارکردگی پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا ہو ؟ قوم کے لئے یقین کرنا ناممکن ہے۔ ان کیلئے اعتراف کرنا مشکل ہے کہ انہیں پتہ تو تھا مگر بتا نہیں سکتے۔اور اس سے بھی بہت پہلے، کوئی نو سال ہوئے، اسامہ بن لادن تورا بورا کی پہاڑیوں سے نیچے اتر کر پاکستان میں وارد ہوئے۔مختلف جگہوں پر رہے اور آخر میں ایبٹ آباد انہیں پسند آیا، راس نہیں ۔ بات وہی شرمندگی کی ہے کہ اسامہ اگر پاکستان میں آئے تو ان اداروں کو کیوں پتہ نہیں چلاجو ایک طویل عرصے سے افغانستان میں ملوث ہیں؟ مانا کہ شروع میں پتہ نہیں چلا ہوگا مگر بعد میں؟ یقین کیسے آسکتا ہے کہ ایک شخص نو سال پاکستان میں رہے اور خفیہ اداروں کو پتہ بھی نہ چلے۔جب اسے تلاش کیا جا رہا ہوتب بھی پتہ نہ چلے کہ اسے کون تلاش کر رہا ہے؟ کیا کیا کررہا ہے؟ اورجب اسے مار دیا جائے ، ایک بڑے آپریشن میں،تو بھی پتہ نہیں چلے!! اس طرح کے ناممکنات پر یقین لانا جیتی مکھی نگلنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اور وہ جو کسی نے کہا کہ اگر قیامت کو آنا تھاتو وہ 2 مئی کو آجاتی۔نہیں آتی۔ابھی قیامت کے فتنے میں ایک قدِآدم کا فرق تھا۔سو وہ اُسامہ کمیشن کی رپورٹ افشا ہو کر پورا ہو گیا۔ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے پوری رپورٹ حاصل کرلی،اس میں جو انکشافات تھے وہ ساری دنیا کے سامنے آگئے۔ابھی تو یہ تعین ہونا باقی تھا کہ اُسامہ کی پاکستان آمد کا کون ذمہ دار ہے،امریکی حملہ سے لاعلمی پر کس کے خلاف کارروائی کی جائے کہ کمیشن کی رپورٹ باہر نکلی اور شائع ہوگئی۔ نکلی ہونٹوں چڑھی کوٹھوں ۔اور یہ سوال مزید گمبھیر ہو گیاکہ ہماری کوئی چیز محفوظ بھی ہے؟ کوئی راز جو ہم چھپا کر رکھ سکتے ہوں؟ کوئی مقام جس تک دشمن کی رسائی نہ ہو؟ رپورٹ کی جو نقل الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ڈالی ہوئی ہے وہ پی ڈی ایف فائل ہے۔ اس میں صاف نظر آتا ہے کہ کسی جلد میں بندھے کاغذات کی فوٹو کاپی کی گئی ہے۔ اس کے نشانات بہت واضح ہیں۔ یہاں کئی سوال اٹھتے ہیں۔ جواب جن کے شاید ہی ملیں۔ تین سو چھتیس صفحوں کی فوٹو کاپی کرنے میں وقت تو لگا ہوگا۔ کیا یہ کام اسی سرکاری دفتر میں ہوا، رپورٹ کی حفاظت جس کی ذمہ داری تھی؟باہر یہ کام ہوا تو رپورٹ اس دفتر سے باہر کیسے نکلی؟ کس نے نکالی؟ اور اہم ترین یہ کہ اصل رپورٹ کہاں ہے؟
وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کا دعویٰ ہے کہ اصل رپورٹ حکومت کے پاس ہے، یقینا ہوگی۔ ایک بات تو یہ کہ رپورٹ کیا کاغذ کے پلندے کو کہتے ہیں؟ یا کسی صفحے پر درج حقائق کو؟ ممکن ہے کاغذات کا کوئی ڈھیر آپ کے پاس ہو، اسے سنبھال کر رکھیں۔ حقائق تو ساری دنیا کے سامنے عریاں ہو چکے ہیں۔ جو ذمہ داری اب، پرویز رشید صاحب آپ پر اور آپ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے وہ ان جاسوسوں کی تلاش ہے جو قومی رازوں کو بیچ ڈالتے ہیں۔ یہ رپورٹ مفت میں الجزیرہ کے ہاتھ نہیں لگی۔ اخبار نویسوں کو اس طرح کے کام معیوب نہیں لگتے۔یہ ان کا پیشہ ہے، خبر حاصل کرنا،۔ جان جوکھوں میں ڈال کر یا رقم خرچ کر کے۔ دنیا بھر میں صحافی یہ کام کرتے ہیں۔ خبر بڑی ہو تو دام خرچ کئے جا سکتے ہیں۔ قصور خریدار کا نہیں، بیچنے والے کا ہے، بکنے والے کا ہے۔ ہزاروں ڈالر غدار شکیل آفریدی نے لئے، چند ہزار کسی اور نے لئے ہوں گے، رپورٹ فراہم کرنے کے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ اصل رپورٹ آپ کے پاس ہے، ہوگی۔ قوم کو یقین مگر اس وقت آئے گاجب آپ اصل رپورٹ اس کے سامنے رکھیں گے۔ شائع کرنے والوں کا دعویٰ ہے اصل رپورٹ ان کے پاس ہے۔ انہوں نے اپنا دعویٰ ثابت کردیا، اب آپ کی باری ہے۔
تازہ ترین