• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دو برس قبل پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کر کے اس پر اپنا ریاستی قبضہ جما لیا تھا۔ ہندوستان کے اس اقدام کے خلاف دنیا بھر میں شدیدردعمل دیکھنے میں آیا ۔ پاکستان میں بھی اس پر زبردست اور بھرپور احتجاج کیاگیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جموں و کشمیر کے مقدمے کو احسن انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کیا۔بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر ایشو پرزبانی جمع خرچ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔اس سلسلے میں جو عملی اقدامات ہماری حکومت کو کرنے چاہئیں وہ ہم نہیں کر سکے۔اب بھی جموں وکشمیر کے عوام امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس سے دستبردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جبکہ نت نئے سوشے چھوڑ کر کشمیر کاز کو نقصان پہنچایاجا رہا ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کا رویہ دن بدن مزید سخت ہوتاجارہا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت پاکستان کے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کشمیر کے حوالے سے قومی پالیسی کیا بنائی جائے۔ ریفرنڈم جدوجہد آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کو عوامی مسائل کے حل سے کوئی غرض نہیں اور نہ خارجہ محاذ پر کسی قسم کی کوئی سوجھ بوجھ ۔ 22کروڑ پاکستانی عوام حکمرانوں کو کشمیر کا سودا نہیں کرنے دیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کشمیر انتخابات سے قبل من گھڑت بیانات قابل تشویش تھے۔ ایسے بیانات دینے سے ہماری سیاسی قیادت کو گریز کرنا چاہئے کہ جس سے قو می ایشو کشمیر کے حوالے سے کنفیوژن پیدا ہو۔جموں و کشمیر کے اہم ایشو کے علاوہ آج کے کالم میں ملک کی نظریاتی اساس سے متعلق بھی تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ چندروز قبل اسلام آباد ہائی وے پر بانی پاکستان قائد اعظم کے پورٹریٹ کے نیچے نیم برہنہ فوٹو شوٹ کی جنتی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ غیر اخلاقی فوٹو شوٹ کرنے اورکرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کچھ مادر پدر آزاد خیال افراد ملک کی اسلامی اقدار اورتشخص کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس وقت قوم کو پوری قوت کے ساتھ ان کا راستہ روکنا ہو گا۔اس سے پہلے لاہورکے مقدس اورتاریخی مقامات پر بھی اس قسم کی گھناؤنی اورشرمناک حرکات کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ اگر ان کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیا جاتا تو یہ سلسلہ بند ہوجاتا مگرافسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔نوجوان نسل کو بے راہ روی کی ترٖٖغیب دینے والوں کوبے نقاب کرناہو گا۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اسلامی نظام حیات ہی پر چل سکتا ہے۔ بیہودہ نظریہ رکھنے والے افراد کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومتی ادارے اس قسم کے اقدامات کی روک تھام کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔وزیراعظم نے بھی عجیب بیان دیا ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے سستا ملک ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ غیر سکاری اعدادو شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران چار مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیا گیاجس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا حکومت کا ایجنڈا نہیں ہے۔ حکومت عوام دشمنی پر اتر آئی اگر ارباب اقتدار نے اپنا طرز حکومت کو تبدیل نہ کیا تو پاکستان کے 22کروڑ عوام اگلی مرتبہ تحریک انصاف کو اقتدار میں نہیں لائیں گے۔ماضی کے حکمرانوں کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو پاکستانی وطن عزیز کےلئے کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں ان کے ساتھ بھی مشکل وقت میں حکومت کا رویہ انتہائی ناروا اور غیرمناسب ہے۔ کورونا کی چوتھی لہر ہے۔ مشرق وسطی اور یورپی ممالک کی پالیسیاں مسلسل کورونا کے باعث تبدیل ہو رہی ہیں۔اس کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران بھی ہزاروں پاکستانی بیرون بیرونی ممالک کے ائیرپورٹس پر کئی ہفتے خوار ہوتے رہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا سرمایہ پاکستان میں انویسٹ کیا۔موجودہ پاکستانی حکومت جو بیرون ملک پاکستانیوں کا زبانی طور پر تو دم بھرتی ہے لیکن ان کے مسائل کو حل کرنے میں پس وپیش سے کا م لیتی دکھائی دیتی ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق 33قومی ادارے ایسے ہیں جن سے ملکی معیشت کو 479ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ پوری قوم ملک وملت کے اسلامی تشخص کو مجروح اورفحاشی وعریانیت کو فروغ دینے والوں کا راستہ روکتی رہے گی۔

تازہ ترین