• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات ہے تو پرانی مگر بیان کرنے میں حرج نہیں۔ کل رات ایک کتے نے دوسرے کتے سے کہا کہ بھاگ یہاں سے ورنہ انسان کی موت مارا جائے گا۔“ یہ بات ان دنوں کی ہے کہ جب شہر قائد پہلی مرتبہ بوری بند لاشوں کے کلچر سے متعارف ہوا۔ پھر اس شہر میں کئی نئے کلچر آگئے۔ ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور بم دھماکے یہ اب روٹین بن چکا ہے۔ایک طرف لوگ رو رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف حکمران حسب روایت بیان پہ بیان جاری کررہے ہوتے ہیں۔ 2001ء سے پاکستان کے عوام ایک ایسے انجانے دشمن کا شکار ہورہے ہیں جس پر قابو پانے میں ہمارے تمام ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ آج لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ جو ملک اپنے اندرونی معاملات اور مسائل یعنی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں پر قابو نہیں پارہا۔ کیا اس کی فوجیں ملک کی سرحدوں پر پیدا ہونے والی کسی ہنگامی صورت سے نمٹ سکیں گی؟وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے دم لیں گے۔ پتہ نہیں یہ ناسور کب ختم ہوگا۔ یہاں تو لوگوں کا دم ہی ختم ہوگیا ہے۔ بابا رحمان ملک کے تمام دور وزارت کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں۔ جس میں موصوف نے ہمیشہ فرمایا کہ دہشت گردوں کو ختم کردیں گے۔
دوسری طرف دہشت گردوں نے جی ایچ کیو ایربیس پولیس کے ٹریننگ سنٹروں فوجیوں کی بسوں تک کو نشانہ بنا لیا۔ مزارات، مساجد، بازار اور آبادیاں تو پہلے ہی غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ اب تو غضب خدا کا جنازوں پر بھی خودکش حملے ہورہے ہیں۔ عدلیہ کے معزز جج صاحبان اور پولیس کے کئی لوگوں پر حملے ہو چکے ہیں۔آج شہر قائد کا نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس اور زرداری ہاؤس کے اطراف کی سڑکیں بند ہیں۔ عوام جس مشکل سے وہاں سے گزرتے ہیں۔ یہ تو کراچی کے عوام ہی جانتے ہیں جس وزیراعلیٰ اور پولیس کے آفیسر کو اپنی حفاظت کے لیے فوج ظفر موج چاہیے ہوگی وہ بھلا عوام کو کیا تحفظ دے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ عوام کو تکلیف دینے کی بجائے کسی جنگل میں جا کر رہائش اختیار کرلیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ کم از کم عوام کو آج کل جو آنے جانے کی مشکلات ہورہی ہیں اس سے تو وہ بچ جائیں گے۔ پتہ نہیں زندگی کتنے دن ہے؟
جنرل مشرف سے پہلے کا لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی جس نے بھی دیکھا ہے اس کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ لاہور کینٹ میں کوئی ناکہ نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی چوکوں پر ملٹری پولیس ٹریفک کنٹرول کرتی نظر آتی تھی۔ آج لاہور کینٹ میں آپ کو بے شمار مقامات پر آپ کو چیک کیا جاتا ہے۔ کراچی میں جگہ جگہ ناکے ہیں اگر پولیس کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ تو پھر خزانے پر بوجھ کیوں؟ پولیس تھانوں میں رینجرز کو بٹھا دیا جائے۔ پولیس فورس کو ختم کر کے رینجرز اور فوج سے مدد لی جائے۔ کیا فوج اور رینجرز گرنیڈ آپریشن نہیں کرسکتے ہیں کیا رینجرز اور فوج چوبیس چوبیس گھنٹے گشت نہیں کرسکتی۔ جن علاقوں میں لگاتار لوگوں کو مارا جارہا ہے وہاں پر سخت ترین چیکنگ اور ناکے نہیں بنائے جاسکتے۔
پاکستان میں 2001ء میں دہشت گردی، بم دھماکے اور خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا۔ اب تک یعنی جولائی 2013ء تک 48659 افراد دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ ان میں فوج، رینجرز، پولیس، عام شہری، بچے، خواتین اور سیاست دان بھی تھے اس دہشت گردی کا جو بھی ذمہ دار تھا ۔ چاہے طالبان تھے یا کوئی اور گروپ اور جنہوں نے اس کام کے لیے رقوم حاصل کیں اور ہزاروں گھر اجاڑ دیئے بے شمار گھرانوں کے اکلوتے کمانے والے اس میں مر گئے۔ اور وہ لوگ غربت کے اندھیروں میں گر گئے۔ سینکڑوں لوگ زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے جو اب کبھی بھی نہ تو کما سکتے ہیں نہ کوئی کام کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں کو مارنے والے، ان لوگوں کو معذور بنانے والوں نے، اس کام کے لیے جتنی بھی رقم لی یا وہ رقم انہیں موت سے بچا سکے گی۔ جس کے پاس بھی اس قدر دولت ہے۔ جو ان کاموں کے لیے خرچ کررہا ہے۔ کیا روز قیامت اس دولت کے زور پر وہ کوئی اراضی بہشت میں حاصل کرے گا؟ کیا موت کے فرشتے کو پیسے لگا کر اپنی زندگی بڑھائے گا؟ اور جو لوگ بھی یہ کررہے ہیں اگر انہیں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو جائے تو اس سے اپنے آپ کو بچا پائیں گے۔ہم نے بہت دعائیں کرلیں کہ یا اللہ اس ملک کو دہشت گردوں سے بچا لے۔ ہم نے بہت دعائیں کرلیں کہ اس ملک کو برباد کرنے والوں سے بچا لے۔ ان کے دل نرم کردے۔ اب دعائیں نہیں ایسے بدبخت لوگوں کے لیے بددعائیں کریں۔ یا اللہ اس ملک کو برباد کرنے والے جو اس ملک میں ہیں اور بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ اللہ کرے انہیں کوڑھ ہو جائے۔ کوڑھ زدہ لوگوں کو شہروں سے اور دیہات سے باہر کردیا جاتا تھا۔ یہ کوڑھ زدہ لوگ ہی تو ہیں جو جیتی جاگتی بستیاں کو اجاڑ رہے ہیں اٹھو لوگو اب وقت آگیا ہے کہ اجتماعی بدعائیں دو۔ دہشت گردی کے خلاف اذانیں دو۔ اس ملک کو برباد کرنے والوں کے لیے بددعائیں دو کہ اللہ انہیں خوفناک امراض میں مبتلا کردے۔ جو اس ملک کو نقصان پہنچائے وہ اندھا ہو جائے اسے آنکھوں کا سرطان ہو جائے۔ اس کو زبان کا سرطان ہو جائے۔کچھ لوگ زندگی میں ایک یا دو شعر ایسے کہتے ہیں جس پر وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے ایک شعر آج سے کئی سال پہلے کہا تھا کہ
اب کیوں اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اب انہوں نے چند اور اشعار اس ملک کے بار ے میں کہے ہیں ۔ صرف چار اشعار یہاں لکھ رہا ہوں۔ نظم کافی طویل ہے۔
کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا
مرا بصرہ، مرا بغداد مولا
بہت دکھ سہہ لیا اہل حرم نے
بہت دن رہ لیا ناشاد مولا
ہمارے حال کی بھی کچھ خبر لے
ہمارے دل بھی ہوں آباد مولا
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
لاہور تو علی ہجویری کی نگری ہے۔ لاہور تو حضرت میاں میر کی بستی ہے لاہور تو حضرت شاہ جمال  کا شہر ہے لاہور تو حضرت بی بی پاک دامناں کا نگر ہے۔ یہاں تو ہمیشہ رحمت ہی رہے گی۔ یہ اولیاء کرام کی بستی ہے۔ ہم اس آخری شعر میں تھوڑی سی ترمیم کرلیتے ہیں۔ اگر ان کی اجازت ہو۔
مرے کراچی پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
آخر کب تک ہم ان لوگوں سے ڈرتے رہیں گے اور ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے۔ جو اس ملک کے بے گناہ، معصوم لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ حکمرانوں سے صرف اتنا عرض ہے کہ اب بیان بازی بند کریں۔ کوئی ایسا ڈنڈا چلا دیں کہ انہیں رہتی دنیا تک لوگ آپ کو دعائیں دیں۔اے شہر قائد تجھے ابھی کتنا خون چاہئے؟ ہزاروں ٹن خون تیری زمین پی چکی۔ ابھی بھی تیری پیاس باقی ہے؟
اک ستم اور میری جاں
ابھی جاں باقی ہے
ایک جماعت اپنے لیڈر کے لیے تودعائیہ تقریبات اور اجتماعات کررہی ہے کبھی انہوں نے اس ملک کی سلامتی، یہاں کے عوام کی بہتری اور ترقی کیلئے یا سلام کا ورد کرایا؟ کبھی انہوں نے بے گناہ مارے جانے والے افراد کیلئے دعائیہ اجتماعات کرائے۔ انسان دلوں میں ظلم کے ساتھ کبھی زندہ نہیں رہتا۔ دلوں میں زندہ صرف محبت کیلئے رہ جاتا ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہنا ہے کہ اس ملک کو برباد کرنے والے خود اور ان کی نسلیں تباہ و برباد ہو جائیں۔
تازہ ترین