• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر ملک اپنی آبادی اور وسائل کی حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیتا ہے ۔جبکہ پاکستان میں بدقسمتی سے آبادی کے کنٹرول کے حوالے سے کوئی مربوط لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جا سکا۔سرکار اور عوام کا خیال ہے کہ بجلی پانی، مہنگائی، تعلیم، علاج، روزگار، امن و امان اور لاقانونیت جیسے بڑے مسائل کے حل ہونے سے معیشت مستحکم اور معیارِ زندگی بلند ہو جائے گا ، مگر ان تمام مسائل کی اصل جڑ کی طرف کسی کا دھیان نہیں۔ آبادی وسائل کی قاتل اور مسائل کی ماں ہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے اور شرح آبادی میں کمی کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کے سلسلے میں تعلیم بالغاں اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے بظاہر بڑے بڑے منصوبے زیادہ تر فائلوں، بینروں، سیمیناروں اور بحث و مباحثہ تک محدود رہے اور عمل کے خانے میں اخراجات کی فہرست کے علاوہ کارکردگی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی آبادی ساڑھے تین کروڑ افراد پر مشتمل تھی اور پانچ ہزار ایک سو کیوسک فی کس پانی میسر تھا جبکہ آج پاکستان کی آبادی 18 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اب فی کس ساڑھے سات سو کیوسک پانی دستیاب ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی ملک میں پانی کی مقدار ایک ہزار کیوسک فی کس سے کم ہو جائے تو وہاں خانہ جنگی اور قحط کا امکان ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح سات فیصد ہے جبکہ آبادی کے بڑھنے کی شرح 2.05 فیصد ہے یعنی اس لحاظ سے ہم صرف 5 فیصد ترقی کر رہے ہیں اور غربت کے خاتمے کے لئے کم از کم 15 جی ڈی پی ضروری ہوتی ہے۔ یوں تو پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں آبادی کا مسئلہ زیادہ سنگین ہے مگر پنجاب میں آبادی کی شرح ان صوبوں سے کم ہے اوراس میں دیگر صوبوں سے پنجاب میں نقل مکانی کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ پنجاب کا رقبہ کل رقبے کا 27فیصد ہے جبکہ اس کی آبادی کل آبادی کے نصف سے بھی زیادہ ہے ۔اورآبادی میں اضافے کا باعث وہ خاندان بن رہے ہیں جن کی آمدنی بہت ہی کم ہے ۔ جو نہ تو تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی مستقل روزگار ہے ۔یوں زمین کے حوالے سے گنجان آباد علاقہ بنتا جا رہا ہے اور پانی کی کمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ لاہور سے باہر کسی بھی طرف نکلیں سڑکوں کے اردگرد بے ہنگم آبادیاں نظر آتی ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آبادی کا محکمہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ بن چکا ہے لیکن ابھی تک اس انتہائی اہم اور حساس شعبے کا انتظام اور بجٹ صوبوں اور مرکز کے درمیان ڈانواں ڈول ہے۔ اگرچہ چاروں صوبوں کو بجٹ مرکز سے فراہم کیا جاتا ہے مگر سندھ اور خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر بھی اس محکمے کو بجٹ دیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں بھی کچھ بجٹ دیا گیا ہے مگر وہ نا کافی ہے ۔البتہ پنجاب میں ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کی وزیر آپا ذکیہ شاہنواز اور سیکرٹری الطاف ایزد خاں انتہائی ذمہ دار، فعال اور کمٹمنٹ پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ اپنے کام کو فائلوں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ نتائج کے حصول کے لئے بھرپور تگ و دو کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر محنت کے باوجود 18 روپے فی کس بجٹ میں آبادی کا سیلاب کیسے روک پائیں گے؟ محکمہ بہبودِ آبادی ورکشاپ اور سیمینارز منعقد کر کے لوگوں میں آگہی مہم چلا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیمیناروں میں آنے والے لوگ تعلیم یافتہ اور مسائل سے آگاہی رکھنے والے ہوتے ہیں مگر شاید یہ اس لئے ہے کہ آبادی پر کنٹرول کرنا صرف ایک محکمے کا کام نہیں بلکہ یہ اجتماعی مسئلہ ہے۔ تمام محکموں کو اس حوالے سے محکمہ بہبودِ آبادی کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا اور معاشرہ کے باشعور افراد، میڈیا اور دینی سکالرز کو اسے ترجیحی بنیادوں پر لینا ہو گا۔
گزشتہ دنوں انرجی، پاپولیشن، پلاننگ اور ایجوکیشن کے حوالے سے ورلڈ بینک اور DFID کے ایک سینئر افسر نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کے بعد کہا کہ میں نے اپنی 21 سالہ سروس میں ایسی میٹنگ کبھی اٹینڈ نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اب اس محکمے اور مسئلے کو بھرپور سنجیدگی سے توجہ کا مرکز بنائیں گے جس طرح انہوں نے ڈینگی کے خلاف ایک کامیاب مہم چلا کر اس پر قابو پایا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ڈینگی کے مقابلے میں آبادی ایک اژدھا ہے اور اس کے لئے اس سے کئی گنا زیادہ وسائل اور توجہ کی ضرورت ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے ترجیحی مسئلہ بنایا جائے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو مدنظر رکھا جائے۔ بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں۔ انہیں مناسب دیکھ بھال، اچھی خوراک اور بہت سے پیار کی ضرورت ہوتی ہے تبھی وہ ایک متوازن شخصیت کے حامل مفید شہری بنتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کی تقدیر بدلتے ہیں۔ اگر یہی روش رہی تو بھوک کے خوف سے والدین بچوں کو بے رحم اداروں میں داخل کراتے رہیں گے۔ چائلڈ لیبر اور سیکس ورکر کی اذیتیں سہنے والے بڑے ہو کر معاشرے سے اپنا انتقام کیسے لیں گے، اس کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا کیوں کہ بھوک بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے اور ایسے عالم میں تعلیم کی کمی تعمیر کی بجائے تخریب کی طرف لے جاتی ہے۔ آبادی کا مسئلہ ہر فرد کا مسئلہ ہے اس لئے ہم صرف اپنے بچے کو پڑھا کر اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے بلکہ ہمیں ان بچوں کا بھی سوچنا ہے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، جنہیں سکول، صحت اور دیگر سہولیات میسر نہیں۔کیونکہ آبادی میں اضافے کا باعث وہ خاندان بن رہے ہیں جن کی آمدنی بہت ہی کم ہے ۔ جو نہ تو تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی مستقل روزگار ہے ۔یوں زندگی کی بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی میں یہ بچے معاشرے کے بے رحم ہاتھوں کے کھلونے بن کر معاشرے کے لئے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنے بچوں کیلئے ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کے خواب کو سچ کرنے کے لئے آبادی کے مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں حکومت اور اداروں کی مدد کرنا ہو گی کیوں کہ اٹھارہ ناخواندہ اور پسماندہ بچوں میں ایک پڑھا لکھا بچہ کس طرح اس ماحول کو صاف، شفاف، پرامن اور خوشحال بنا پائے گا۔ چین کے پاس ہم سے 14 گنا زیادہ Space ہے جبکہ اس کی آبادی 6 گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود چین میں صرف ایک بچے کی اجازت ہے۔ پاکستان کو بھی Space، پانی اور معاشی مسائل کو دیکھتے ہوئے اس حوالے سے چین جیسی جامع قانون سازی کرنا ہو گی ورنہ لوگوں کی بھیڑ اس ملک کو واقعی جنگل میں بدل دے گی۔
تازہ ترین