• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج کا کالم ایک واقعہ سے شروع کررہا ہوں۔دہلی میں ایک بار جمیل جالبی، باقر مہدی، نثار فاروقی اور شمس الرحمٰن فاروقی لنچ کے بعد پان کھانے نکلے، مشہور دکان پر پہنچے پان والے نے ان ادیبوں کو پہچان کر خاص طور پر ایک بڑا سا پان پیش کیا تو پاکستان سے گئے جمیل جالبی پان دیکھ کرخوش ہوکر بولے ’’ماشاء اللہ۔ اتنا بڑا پان، ہمارے پاکستان میں تو دو انگلی کا چندی بھر پان ملتا ہے‘‘۔ یہ سُن کر باقر مہدی نے جالبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’حضرت آپ کا ملک بھی تو دو انگلی جتنا بڑا ہے‘‘۔

پاکستان کےمستقبل کے بارے میں نہ صرف مولانا ابوالکلام آزاد نے پیش گوئی کر رکھی تھی بلکہ ہندو پاک سے ہزاروں میل دُور بیٹھے ایک پروفیسر نے بھی کچھ ایسی ہی رائے دی۔ جون 1949کی بات ہے بروکلین نیویارک میں پروفیسر ڈی شوئی مان نے ایشیا کی تازہ صورتحال پر لیکچر دیتے ہوئے کہا ’’سائوتھ ایشیا میں حال ہی میں پاکستان نامی ریاست عالم وجود میں آئی ہے، اس کا وجود غیر محفوظ ہے جس کو وقت ثابت کرے گا یہ ریاست نصف سے بھی کم صدی میں اپنے ہی لوگوں کی مشکلات میں گھر جائے گی کیونکہ اس کے لوگوں نے غلامی کی زنجیروں میں جنم لیا ہے وہ ایک آزاد ملک کی محبت اور حدت کو محسوس نہیں کرسکتے۔ میرے الفاظ نوٹ کر لیجئے میں اس کا اندرونی حال جانتا ہوں‘‘۔ پروفیسر ڈی شوئی مان کی پیش گوئی مولانا آزاد کی طرح اس وقت درست ثابت ہوئی جب 16دسمبر 1971کو پاکستان دولخت ہوا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ بظاہر ہمیں آزاد ہوئے پون صدی ہونے کو آئی لیکن بنیادی سوالات ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں مثلاً یہ کہ اس آزادی کی نوعیت کیا ہے؟ اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ یہ آزادی کس نے کس سے حاصل کی ہے؟ کیا دنیا بھی اسے ہی آزادی کہتی ہے جو ہمارے نزدیک آزادی ہے؟ یہ آزادی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کتنی سودمند ثابت ہوئی یا ہورہی ہے؟ اور یہ کہ اس ’’آزاد عوام‘‘ کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں ہے؟

معروف دانشور و سیاستدان رفیق ذکریہ مرحوم اپنی کتاب The one who divided Indiaمیں قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ ’’جب پاکستان کی تخلیق کے بعد علماء کے ایک وفد نے قائد سے ملاقات کرکے اس نئے ملک (پاکستان) میں شرعی نظام کا مطالبہ کیا تو مسٹر جناح نے پوچھا‘‘ آپ کس شرعی نظام کی بات کر رہے ہیں حنفی؟ حنبلی؟ مالکی؟ شافعی یا جعفریہ؟ میں اس جھگڑے میں قطعی پڑنا نہیں چاہتا اگر میںا س جھگڑے میں پڑا تو علماء یہ کہہ کر حکومت میں مداخلت شروع کر دیں گے کہ وہ شرعی امور کے ماہر ہیں، حکومت کو علماء کے حوالے کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں‘‘۔ میرے حساب سے علامہ اقبال کی طرح جناح بھی کمال اتاترک کے مداح تھے ۔یاد رہے کہ آج سعودی عرب بھی اتاترک کے نقش قدم پر چل رہا ہے، قائدِاعظم کاروبار حکومت کے لئے آئین کو مقدم سمجھتے تھے اور آئین کی بالادستی کو اولیت دیتے تھے۔سلور جوبلی، گولڈن جوبلی، پلاٹینم جوبلی یا ڈائمنڈ جوبلی مناکر جہاں قوموں کو خوشی ہوتی ہے وہیں انہیں گزرے ہوئے برسوں میں اپنی مجموعی کارکردگی کا موقع بھی ملتا ہے برصغیر کے 75برسوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان 75برسوں کے ہوچکے ہیں لیکن پاکستان اس عرصہ میں تنزلی کی طرف گیا ہے۔ 75برسوں میں کشور حسین شادباد کی ترقی ویسی ترقی ہرگز نہیں جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔پاکستان کی سیاسی، سماجی اقتصادی اورمعاشی ترقی کا گراف اوپر سے نیچے اور بھارت کا گراف نیچے سے اوپر گیا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب سے 40برس پہلے تک پاکستان کا عام آدمی کہتا تھا خدا کا شکر ہے کہ ہم بھارت کی طرح بھوکے ننگے نہیں ہیں لیکن آج پاکستان کا ہر شہری برملا کہتا ہے کہ ہم جمہوری اور اقتصادی لحاظ سے بھارت کی طرح کیوں نہیں ہوسکے؟ اس کا جواب جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی یوں دیتے ہیں کہ بھارت جمہوری اور سیاسی اعتبار سے ہمارے لئے ماڈل ہے اور معیشت کے لحاظ سے نمونہ، پاکستان کو بھارت کی طرح کی سیاسی اور سماجی قیادت فراہم نہیں ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہ ہوسکی؟ مانا پاکستان کی تخلیق مذہب کے نام پر ہوئی لیکن مذہب سے مارشل لائوں کا کیا تعلق ہے؟ میرے حساب سے بھارت اور پاکستان کی سیاست کا بنیادی اور جوہری فرق ہے مارشل لا اور فوجی حکومتیں۔ بھارت نے ایک بار بھی مارشل لا کی مکروہ شکل نہیں دیکھی اور ہم چھ مارشل لا بھگت چکے ہیں۔

تازہ ترین