کورونا وبا نے اگرچہ پوری دنیا کو متاثر کیا لیکن پاکستان ان معدودےچند ممالک میں شامل ہے جوتاحال اِس وبا کے نقصانات کا ازالہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ ملک آئے روزاس گرداب میں مزید پھنستاچلاجارہاہے۔خارجہ محاذپر مخصوص اسٹرٹیجک مفادات،داخلہ محاذپر سیاسی کشمکش، مہنگائی، غربت، بےروزگاری اور قابو میں نہ آنے والے ذخیرہ اندوز مافیاز کے سبب پاکستان اُس طرح کورونا چیلنجز سے نبردآزما نہ ہوسکاجس طرح دیگر ممالک عہدہ برآ ہوئے۔ہمارے ہاں یوں تو مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے دوسرے ممالک کی مثالیں دینے کی روایت پرانی ہے لیکن موجودہ دور میں حیل وحجت اورجواز تراشناگویافن بن چکاہے۔جیساکہ ان دنوں غریب کُش مہنگائی کے تناظرمیں کہاجاتاہےکہ مہنگائی تو دوسرےممالک میں بھی بڑھی ہے،حالانکہ ایک تو اس قدر ہوش ربا اورروزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ کسی بھی ملک میں نہیں ہوا، جہاں جہاں کچھ بڑھی ہے تووہاں مہنگائی کے تناسب سے کہیں زیادہ شہریوں کے معیارِزندگی اورفی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، ہمارے ہاں بالخصوص کورونا کی وجہ سے یومیہ اجرت پرکام کرنے والے محنت کش اذیت ناک مشکل سے دوچا رہوگئے ہیں،تنخواہوںمیں اضافہ نہ ہونےکی وجہ سے یہ طبقہ بھی حالیہ مہنگائی کا مقابلہ کرنےکی سکت کھوچکا۔اسی طرح جہاں کہاجارہاہےکہ کورونا کی وجہ سے دیگر ممالک کابھی معاشی وتعلیمی نقصان ہواتو یہ نہیں کہا جارہا کہ ان میں سے اکثرتو ترقی یافتہ ممالک تھے جواپنی مضبوط معیشت کی وجہ سے اپنے شہریوں کو بدحال ہونے سے نہ صرف بچانے میں کامیاب ہوئے بلکہ اُن کی رواں زندگی میں بھی کوئی فرق نہیں آنے دیا۔بنابریں وہاں کا جدید تعلیمی وصحت کا نظام تو ایسی صورتحال کیلئے ہمہ وقت تیاررہتاہے،ترقی پذیر ممالک بھی پاکستان کے مقابلےمیں بہت جلد مقابلے کی پوزیشن میں آگئے، لیکن ہم ہیں کہ ایک تو ہمارا رونا کم ہی نہیں ہورہا اور دوسری طرف وبا سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقداما ت بھی نہیںکئے جا رہے۔حال ہی میں ہندوستان میں میٹرک کے امتحانا ت کےنتائج آئے ہیں، آن لائن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں عالمگیر مہارت کی وجہ سے وہاں کےنتائج حسب سابق 95تا 98فیصد آئے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ آج تو کورونا ہےلیکن اگراس سے قبل دیکھیں توہم دیگرممالک توکیا، ہم سے ہی آزادی لینےوالے بنگلہ دیش سے بھی ہم ہر شعبے میں کوسوں پیچھے تھے۔بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2064 ڈالرز ہے جبکہ پاکستان کی اس سے آدھی یعنی 1271 ڈالرز ہے،پاکستان میں شرح خواندگی 60 فیصد اور بنگلہ دیش میں 80فیصد ہے،پاکستان میں 72 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں یہ تناسب 98 فیصد ہے،ستم یہ ہے کہ غربت اور اسکی وجہ سےپیداہونے دیگرنفسیاتی مسائل کے سبب خدشہ ظاہر کیا جارہاہےکہ ہمارے ہاں 30فیصدبچے اسکول نہیں جارہے۔پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے جہاں تعلیم کو امیروں کے گھروں کی لونڈی بنادیا گیاہے،وہاں آزاد مدرسہ سسٹم میں جدیدتعلیم کو قبول نہیں کیاجارہا،الغرض تعلیمی شعبے میں مادر پدرآزادی اور سرکارکی عدم توجہ کی وجہ سے جہاں شعبہ تعلیم کی دیواریں پہلے ہی کمزورپڑگئی تھیں تو رہی سہی کسرکورونا نے نکال دی ہے،اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی ڈاکٹرسعیدالدین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہم نے کوشش کی ہے کہ طلبہ کا تعلیمی نقصان کم سے کم ہو، آن لائن کلاسز کا بھی انعقاد کرایا تاہم سو فیصد طلبہ کی انٹرنیٹ کی سہولت تک عدم رسائی اور آن لائن کلاسز لینے والے اساتذہ کی بڑی تعداد غیرتربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے، محدود پرچوں کا امتحان لینے کے سبب طلبہ بہت سے مضامین کی بنیادی معلومات سے محروم رہ گئے ہیں، بچوںکی عادات اور ان کے رویوں پر بھی اثر پڑا ہے، ہمیں نقصانات کےازالے کے لئے جلد اور دیرپا دونوں پالیسیاں بنانا ہونگی ۔خلاصہ یہ ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا نے دیگر مسائل کے ساتھ پاکستان میں تعلیمی نظام کی خامیاں بھی بے نقاب کر دی ہیں۔پاکستانی آئین ہر کسی کے لئے تعلیمی سہولتوں کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن اگر کم مالی وسائل اور ملک میں تعلیمی شعبے کی عمومی صورت حال کو دیکھا جائے تو فوری اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ حکمران آئین پر کس قدر عمل پیراہیں۔ ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں، تو پھر وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ دیہات کی توبات ہی کیا کی جائے کہ شہروں میں بھی ایک بڑی تعداد کے پاس کمپیوٹر یا اسمارٹ فون نہیں ہے۔ الغرض تکنیکی انفراسٹرکچر سمیت ورچوئل کلاس روم کےلئے جب درکارلوازمات ہی نہ ہوںتو کیونکر آن لائن سسٹم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟ کورونا وباکی وجہ سے کیمبرج اوراُن تعلیمی اداروں کے طلبا متاثرنہیں ہوئے جہاں غریب پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ گویایہ ملک جو امیر وغریب دونوں کی یکساں میراث ہے،استحصالی نظام کی بدولت یہاں صرف امیربچوں کوہی آگے بڑھنےکے موقع دسیتاب ہیں۔الغرض دیکھنا یہ ہے کہ تعلیم جس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے،حکمران موجودہ تعلیمی نقصان کو کس قدر سنجیدہ لیتے ہیں!