• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بچپن ہی سے معاشرتی علوم اور مطالعۂ پاکستان کی نصابی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ کسی ملک کی معتدل آب و ہوا کے لئے اس ملک کے 25فیصد رقبے پر جنگلات کا وجود ضروری ہے۔ ساتھ ہی اِس خوف ناک حقیقت کا احساس بھی دلایا جاتا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صرف 5فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔ تازہ ترین صورت یہ ہے کہ ہمارے 5فیصد رقبے پر لگے تقریباً 76فیصد جنگلات کاٹے جا چکے ہیں۔ آج ملک کے صرف 1.6فیصد رقبے پر جنگلا ت رہ گئے ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا سبب بڑھتی ہوئی انسانی آبادی ہے۔ انسانوں نے اپنے مکان کھڑے کرنے کے لئے جنگلات کاٹے۔ موسم میں پیدا ہونے والی حدت، شدت اور حرارت ہمارے اسی عمل کا شاخسانہ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم دھوپ میں چلتے چلتے تھک جاتے ہیں تو سایہ دار شجر تلاش کرتے ہیں۔ حفیظ جون پوری نے کیا خوب کہا ہے:

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے

ہائے! کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

اسی طرح ہمارے احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے:

دشمن بھی جو چاہے تو مری چھائوں میں بیٹھے

میں ایک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں

میں 2004میں جناب فخر زمان کی ورلڈ پنجابی کانگریس کی دسویں کانفرنس میں شرکت کے لئے ہریانہ کے شہر، کرک شیتر گیا تو وہاں کے عمر رسیدہ وزیراعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ نے اپنے ایک ہم وطن شاعر کا یہ شعر سنا کر ہم سب پاکستانیوں کو چونکا دیا تھا:

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

اُدھر محبت کا شجر لگانے کی بات ہوئی ، اِدھر شجر کشی ہوتی رہی، تبھی تو پروین شاکر کو کہنا پڑا تھا:

کل رات جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اُس بوڑھے شجر سے

ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان کی حکومت میں شجر کاری پر خاص زور دیا جا رہا ہے۔ شجر کاری کا یہ عمل سیاست کی منافقت کی حدود سے نکل کر انسانی ضرورتوں کی حقیقت کے قریب پہنچ چکا ہے۔ شجر کاری کی ضرورت کا احساس ساری قوم میں اتنی شدت کے ساتھ جاگا ہے کہ حکومت کے مخالفین بھی شجر کاری کی مہم کا حصہ بنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہ مہم اب ایک تحریک بنتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں اگرچہ شجر کاری کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود ان مکانوں کے مکین کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو شجر کاری کی مہم سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گھروں میں چھوٹے بڑے گملے رکھے جا رہے ہیں۔ چھتوں پر مٹی ڈال کر پودے لگائے جا رہے ہیں۔ اس بار تعلیمی اداروں میں بھی صحیح معنوں میں شجر کاری کی گئی ہے۔ محکمہ جنگلات اور پی ایچ اے کی طر ف سے عام لوگوں اور سرکاری و نجی اداروں کو مفت پودے دیے گئے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں گزشتہ سات دہائیوں سے سال میں دو دفعہ شجر کاری ہوتی چلی آ رہی ہے لیکن جنگلات کا رقبہ بڑھتا کیوں نہیں؟ غور کرتا ہوں تو جواب سوجھتا ہے کہ ہم شجرکاری تو کرتے ہیں لیکن شجر پروری نہیں کرتے۔ ایک پودا لگاتے ہیں، اپنی تصویر بنواتے ہیں،اسے اخبار میں چھپواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ نہیں، جناب نہیں، ایک پودا لگانے کے بعد ہی تو ہماری اصل ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔

ہم نے گزشتہ دہائیوں میں شجر پروری سے زیادہ شجر کشی پر توجہ مرکوز کئے رکھی۔ شجر کشی بظاہر ایک معمولی سا عمل دکھائی دیتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ قوم پر خودکش حملے کے مترادف ہے۔ شجر کشی کے اس عمل نے ساری قوم سے موسم کی خنکی اور خوش گواریت چھین لی۔ تازہ ہوا سلب کر لی۔ صد شکر کہ آج شجر کشی کرنے والوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ درخت زندگی ہیں۔ جس طرح زندگی کے لئے پانی اشد ضروری ہے، اسی طرح درخت بھی زندگیوں کو بچانے کا کام کرتے ہیں۔ یوں کہیے کہ درخت انسانی معاشرے میں پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔ یہ ہوا کو صاف کرتے ہیں اور انسانی زندگی کو بڑھاتے ہیں لیکن ہم اپنے معمولی اور وقتی فائدے کے لئے شجر کشی کرتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو ہدایات دیتے ’’کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک اور ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا‘‘۔ ہمارے نبیؐ نے درختوں کو حالت جنگ میں نہ کاٹنے کی ہدایت دی ہے لیکن ہم عام حالات میں بھی شجر دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے، ہم پر رحم کرے۔

الحمدللہ! وطن عزیز چار موسموں کے رنگوں سے مزین ہے۔ ان میں سے دو موسموں میں شجر کاری ہوتی ہے۔ اس بار برسات کی شجر کاری دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے شجر کاری ہمارا پانچواں موسم ہے۔ موسم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ شجر کاری کا پانچواں موسم پورا سال اسی طرح جوبن پر رہے گا۔ اس کا جادو بارہ مہینے سر چڑھ کر بولے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں دنیا کے سب سے بڑے میاواکی جنگل کا افتتاح کر دیا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے ہمارا فکشن رائٹر دوست اور ڈائریکٹر پی ایچ اے علی نواز شاہ دن رات کام کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ وہ واقعی سگیاں پل کے قریب لگائے جانے والے اس جنگل کو دنیا کا سب سے بڑا میاواکی جنگل بناکر ہی دم لے گا۔ اگر حکومت واقعی ملک کے 25فیصد رقبے پر جنگلات لگانا چاہتی ہے تو شجر کاری کو پانچواں موسم قرار دے دے۔

آخر میں یوم آزادی کے حوالے سے میرے دو شعر ملاحظہ کر لیجئے:

کہیں جمال، کہیں ہے جلال پاکستان

گھٹا جنوب کی بادِ شمال پاکستان

مرے بدن پر لگائے ہیں زخم کس کس نے

بنا ہوا ہے، سراپا سوال پاکستان

تازہ ترین