• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جرنیل سیدھا سادا دیانتدار مسلمان دکھائی دیتا تھا۔ بظاہر اس کو طاقت حاصل کرنے کا بھی کوئی لالچ دکھائی نہیں دیتا تھا اس لئے بہت سے سینئر جرنیلوں کو پیچھے ہٹاکر اسے آرمی چیف بنادیا گیا لیکن پھر اسی نے کچھ عرصے کے بعد اپنے باس کے خلاف کودتا کر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم صرف جنرل ضیاء الحق کی بات کر رہے ہیں۔ نہیں ہم مصر کے آرمی چیف جنرل ابوالفتح السیسی کی بات کر رہے ہیں جسے مصر کے صدر محمد مرسی نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سینئر جرنیلوں کوایک طرف کرکے فوج کاسربراہ بنایا تھا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل ابوالفتح کا طریق واردات ایک جیسا تھا کہ انہوں نے کمال ہوشیاری سے حاکم وقت کو شیشے میں اتارا اور پھر ان کا تختہ الٹ دیا۔ کیا اس حیرت انگیز مماثلت سے یہ اخذ کیا جائے کہ آخر کار پاکستان میں بھی فوج ہی حکومت کرے گی۔ ہمارے خیال میں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بہت سارے پہلوؤں سے دونوں ممالک جمہوری اقدار کے ارتقاء میں مختلف مرحلوں سے گزر رہے ہیں۔
سرسری جائزے کے مطابق مصر اس منزل پر کھڑا ہے جس پر پاکستان اواخر ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں تھا۔ اس وقت ایوب خان کے طویل مارشل لاء کے بعد یحییٰ خان کا مارشل لاء لگا اور پھر پہلی مرتبہ آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے جیتیں۔ مشرقی بنگال کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیر اعظم تھے جو عوام کے ووٹوں سے جیت کر آئے تھے۔ ان کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن مذہبی جماعتیں اور نیشنل عوامی پارٹی یا مزدور کسان پارٹی جیسی بائیں بازو کی پارٹیاں انہیں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ طبقاتی سطح پر قدامت پرست درمیانہ طبقہ اور سرمایہ دار کسی بھی حالت میں انہیں حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے بھی چھوٹے سے لے کر بڑے سرمایہ داروں کو ان کا مخالف بنا دیا تھا۔ فوج میں چھوٹی موٹی کودتا کی ناکام سازش بھی ہوئی لیکن 1977ء کے الیکشن میں تمام بھٹو مخالف طاقتوں نے قومی متحدہ محاذ قائم کیا۔ اگر اب واپس مڑ کر تاریخ کے اس منظرنامے کو دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فوج اور قومی اتحاد کے جھنڈے تلے جمع ہونے والی طاقتوں کے لئے الیکشن بے معنی تھا، وہ کسی بھی حالت میں بھٹو کو دوبارہ حکومت میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اب اس کا الزام ایئر مارشل اصغر خان پر لگایا جاتا ہے (جو بدیہہً درست ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ مخالف دھڑے مفاہمت کے لئے تیار نہیں تھے لہٰذا مارشل لاء کا لگنا ناگزیر تھا۔جمہوری نظام ایک مسلسل عمل ہے، یہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔ اسی لئے بقول پروفیسر السٹیپن پختہ جمہورتیں بھی مشکلات سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ جمہوری عمل تب تک جاری رہتا ہے جب تک بہت سے مخالف دھڑے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور تیسری طاقت یا فوج کی مداخلت کو دعوت نہیں دیتے۔ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کا سیاسی ڈھانچہ ہے اور سرمایہ داری نظام میں متحارب قوتیں بیک وقت پھلتی پھولتی ہیں مثلاً ایک طرف تو کھانے پینے کی صنعت موٹا ہونے والی غذائیں بیچتی ہے اور دوسری طرف ایک اور انڈسٹری ہے جو پتلا ہونے کے نسخے فروخت کرتی ہے۔ اب یہ دونوں صنعتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی خوبی یا خامی ہے کہ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ ہضم کرتا چلا جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کی سیاسی منڈی میں متحارب خیالات کو بیک وقت برداشت کیا جاتا ہے مثلاً امریکہ میں کٹر دہریوں اور بنیاد پرستوں، نسل پرستوں اور ان کے مخالفوں کو بیک وقت برداشت کیا جاتا ہے۔
اس نظری تناظر میں آج کے مصر اور پاکستان کو دیکھئے۔ مصر میں اخوان المسلمین اپنے مخالفین کو کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں تھی، وہ اپنا مخصوص مذہبی نظریہ مصر میں لاگو کرنا چاہتی تھی۔ دوسری طرف سیکولر اور آزاد خیال دھڑے کسی بھی حالت میں صدر مرسی کی اخوان پارٹی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ تیس جون کو جب صدر مرسی اپنی صدارت کی سالگرہ منا رہے تھے تو ان کے لاکھوں مخالف تحریر چوک میں ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مظاہروں میں فوج اور سابق صدر حسنی مبارک کے حامیوں کی سازش بھی ہوگی لیکن حقیقت یہی ہے کہ سارے مصر میں لاکھوں کروڑوں عوام سڑکوں پر صدر مرسی کے خلاف نکل پڑے تھے اور وہ ان کے استعفے سے کم کسی بات پر مفاہمت کیلئے تیار نہیں تھے۔ یہ پاکستان کے1977ء کے قومی متحدہ محاذ سے بہت مماثل تھی حالانکہ دونوں کے نظریات ایک دوسرے کے الٹ تھے۔ قومی متحدہ محاذ کی رہنمائی مذہبی جماعتیں کر رہی تھیں جب کہ تحریر چوک کے مظاہرین سیکولر اور آزاد خیال تھے جو صدر مرسی کی مذہبی حکومت (متحدہ محاذ جیسے ایجنڈے والی) کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں حکومت وقت کے ساتھ مفاہمت نہیں کرنا چاہتے تھے لہٰذا فوج نے مداخلت کی۔ پاکستان میں 1988ء سے لے کر 1999ء تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کے لئے تیار نہیں تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ یا فوج بھی پہلے پیپلزپارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نباہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بنیادی طور پر فوج کی مداخلت سیاسی دھڑوں کی باہمی غیر مفاہمتی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن تھی۔ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی تو مسلم لیگ (ن) فوج کو تختہ الٹنے پر اکساتی اور اگر مسلم لیگ (ن) کا دور آتا تو پیپلزپارٹی فوج کی مداخلت کا راستہ صاف کرتی۔ اس پس منظر میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والی مفاہمتی یاداشت تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ اس کے بعد سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ لیا۔
جب شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف جلاوطنی سے لوٹ کر آئے تو غالباً دونوں یہ سبق سیکھ چکے تھے کہ کچھ بھی ہو ایک دوسرے کی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کریں گے۔ شہید بے نظیر بھٹو نے اپنے بڑے حریف میاں نواز شریف کو الیکشن میں حصہ لینے پر تیار کیا اس طرح مفاہمتی پالیسی کی داغ بیل ڈال دی۔ اس پہلو سے بے نظیر بھٹو کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ انہوں نے اپنے سب سے بڑے حریف کو سیاسی عمل میں شامل ہونے کے لئے تیار کیا۔ میاں نواز شریف نے بھی جلاوطنی کے دوران جو سبق سیکھا تھا کہ سیاسی مفاہمت ہی جمہوری نظام کی اساس ہے، اس پر قائم رہے ۔دونوں رہنما اپنے تجربوں سے مفاہمتی حکمت عملی کے گُر بھی جان چکے تھے، غیر تجربہ کار سیاستدانوں میں اب بھی اس کی کمی واضح نظر آتی ہے۔
پچھلے پانچ سال میں نہ تو پیپلزپارٹی کی حکومت نے کوئی محاذ آرائی کی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے۔ اگرچہ میاں نواز شریف کو دوستانہ حزب مخالف ہونے اور ”مُک مُکا“ کی سیاست کرنے کے طعنے ملتے رہے لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور پیپلز پارٹی کو اپنے پانچ سال پورے کرنے کا موقع فراہم کیا۔ چونکہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں اور ان کے اتحادی باہمی مفاہمت کی پالیسی پر گامزن رہے اس لئے چھوٹی پارٹیوں کو مہم جوئی کا حوصلہ نہیں ہوا۔ حالیہ الیکشنوں سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری جیسے لوگوں نے جمہوری عمل میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی لیکن عدلیہ اور خود فوج نے اس کی حوصلہ شکنی کی۔ کچھ لیت و لعل کے بعد جمہوری انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور بظاہر بڑی سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری بلوغت کا ثبوت دیا۔ مصر میں ابھی شعور اس منزل پر نہیں پہنچا اور غالب امکان ہے کہ کافی عرصے تک فوجی کودتا ہوتے رہیں گے جب تک مخالف سیاسی دھڑے ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہ ہو جائیں۔
تازہ ترین