• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب کو سانپ سونگھ گیا ہے ،سب بغلیں جھانک رہے ہیں ،کسی مذہبی جماعت کو توفیق نہیں ہو رہی کہ ملالہ یوسف زئی سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایک بیان ہی جاری کر دے۔اور مذہبی جماعتوں پر ہی کیا موقوف، وہ دانشور جنہیں اس ملک میں سوائے فحاشی کے کچھ نظر نہیں آتا ،جو ”فی سبیل اللہ “ دہشت گردوں کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں اورجو ویلنٹائن ڈے کو یوم حجاب کے طور پر منانے پر کلکاریاں مارتے ہیں ، انہیں بھی حوصلہ نہیں ہو رہا کہ ملالہ کی حمایت میں دو لفظ ہی لکھ دیں ۔ملالہ یوسف زئی، وہ بچی جس کی سولہویں سالگرہ اقوام متحدہ میں منائی گئی، جس نے جنرل اسمبلی میں خطاب کیا،جس کے استقبال کے لئے گورڈن براؤن اور بان کی مون آگے پیچھے پھر رہے تھے اورجس نے دنیا کے سامنے پاکستان کا امیج ہی بدل ڈالا…کیا حالیہ تاریخ میں پاکستان کی اتنی عزت افزائی ہوئی ہے ؟
ہم تو لفظ ”عزت “ کے ہجے ہی بھول گئے ہیں ،دنیا ہمیں ایک ایسے ملک کے طور پر جانتی ہے جس نے Most Wanted شخص کو چھ سال تک اپنی گود میں چھپائے رکھا، ایک مدت سے ہم نے کوئی اچھی خبر اپنی سر زمین سے جاری نہیں کی ،کرہ ارض پر کہیں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جائے پہلا شک ہم پر کیا جاتا ہے ۔اور دہشت گردی کا ذکر ہی کیوں،ہماری اوقات تو اولمپک میں کانسی کا تمغہ جیتنے کی بھی نہیں رہی ،کتنے عرصے سے ہم نے ہاکی یا کرکٹ کا ایک ڈھنگ کا میچ نہیں جیتا ،ایسے میں ایک پاکستانی بچی کو نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جاتا ہے ،ٹائم میگزین کے سرورق پر اس کی تصویر شائع ہوتی ہے ،اقوام متحدہ میں پھنے خان قسم کے عالمی لیڈر اس کا خطاب سننے کے لئے آنکھیں بچھائے کھڑے ہو جاتے ہیں ،تو کیااس پر ہمارا سر فخر سے بلند نہیں ہوجانا چاہئے ؟ یہ درست ہے کہ ہمارے میڈیا نے ملالہ کے اقوام متحدہ کے خطاب کو کسی حد تک کوریج دی مگر کیا یہ کوریج شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کے مقابلے میں بھی مناسب تھی ؟
اصولی طور پر تو اس دن پورے ملک میں عام تعطیل کر کے ایک جشن برپا کیا جانا چاہئے تھا جس دن ملالہ نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئے پاکستان کے سفارت خانے مل کر بھی وہ کام نہ کر سکے جو اس بچی نے اکیلے کر دکھایا ۔مگر افسوس ،ہمارے مذہبی اور دائیں بازو کے طبقات کو تو گویا سانپ سونگھا ہوا ہے ،سوائے چند ایک اخباری کالمو ں اور دو ایک ٹاک شوز کے ،کسی کو خیال نہیں آیا کہ ایک کالم یا ٹاک شو خصوصی طور پر ملالہ کی نذرکر دیا جاتا۔اس سے زیادہ جشن تو ہم شاہد آفریدی کی نصف سنچری پر منا لیتے ہیں ،اس سے زیادہ فخر تو ہمیں نام نہاد پاکستانی نژاد برطانوی باکسر کی کسی پول میچ میں فتح کا ہوتا ہے، اس سے زیادہ خوشی تو ہمیں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہوتی ہے ۔وہ ٹی وی چینلز جو بات بے بات پر میرا تھن لائیو ٹرانسمیشنزبرپا کرتے ہیں انہیں بھی اس کا خیا ل نہیں آیا کہ ملالہ کے لئے خصوصی نشریات چلاتے،اور آتا بھی کیسے،سرکاری ٹی وی خود دھنیا پی کے سوتا رہا،اسی طرح حکومتی سطح پر وزیر اعظم ہاؤس سے کم از کم ایک بیان ہی آ جاتا ،اگر آئے دن طالبان سے مذاکرات کے حق میں بیانات آ سکتے ہیں تو ایک بیان ملالہ کے حق میں کیا برا تھا؟یا کم از کم کوئی وفاقی وزیر ہی رسمی سا بیان داغ دیتا مگر وفاقی وزراء تو رمضان بازاروں میں چھاپے مارنے کا بے معنی فریضہ انجام دے رہے ہیں ( بے معنی اس لئے کہ وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار اگر رمضان بازار میں چھاپے ماریں گے تو اسے اور کیا معنی دیے جا سکتے ہیں )ان کے پاس فرصت کہاں؟میں لبرل طبقے کا بھی ایسا کچھ خاص حامی نہیں کہ اس طبقے پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو مے نوشی کو لبرل ازم کی معراج سمجھتے ہیں ۔لیکن اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود ملالہ کے حق میں اگر کسی طبقے نے آواز اٹھائی ہے تو وہ پاکستان کے روشن خیال لوگ ہیں ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا ہمیں عزت دینا چاہتی ہے اور ہمیں عزت راس ہی نہیں آ رہی؟ وجہ وہی سازشی نظریات۔چونکہ ہر بات میں سازش ڈھونڈننے میں ہم یدطولیٰ رکھتے ہیں لہٰذاملالہ کیس میں پہلے ہم نے یہ تھیوری پیش کی کہ اس معصوم بچی کو سرے سے گولی ہی نہیں لگی، دوسری تھیوری یہ آئی کہ وہ سی آئی اے ایجنٹ ہے اورتیسری تھیوری یہ مشہور ہوئی کہ ملالہ کے والد نے برطانوی شہریت کے لئے سارا ڈرامہ رچایا۔دنیا میں اگر لطیفے بازی کا مقابلہ ہو تو ان سازشی تھیوریوں کو لطیفے سمجھ کر دنیا والے ہمیں ضرور ایک تمغہ عنایت کر دیں گے ۔اگر ملالہ کا والد اتنا ہی قابل ہے کہ اس نے گورڈن براؤن سے لے کر بان کی مون تک اور پاکستان کے آرمی چیف سے لے صدر مملکت اور میڈونا سے لے کر انجلینا جولی اور آدھی سے زیادہ دنیا کو بیوقوف بنا ڈالا تو ہمیں ایسے جینئس شخص پر تو ویسے ہی فخر کرنا چاہئے۔دراصل کچھ لوگ اس ملک میں اتنے چھوٹے ہیں کہ غیر ملکی امیگریشن سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتے بالکل اس طوائف کی طرح جسے اگر چھاپے میں پولیس دھر لے تو وہ ایس ایس پی کو دھمکی لگاتی ہے کہ تم مجھے جانتے نہیں ، فلاں ڈی ایس پی میرا واقف ہے کیونکہ اس بیچاری کی سوچ ڈی ایس پی سے آگے کی نہیں ہوتی۔
کہاں تو ہم مغربی دنیا اور میڈیا کو لڑاکا عورتوں کی طرح کوسنے دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ڈنڈی مارتے ہیں ،ان کی برائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، ہمارے خلاف آئے دن سازشیں کرتے ہیں …اور اب جبکہ وہ قوم کی اس بیٹی کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں تو ہمیں پھر بھی تکلیف ہے ،ہم اس میں بھی سازش کی بو سونگھتے پھررہے ہیں۔ہماری اپنی اوقات تو یہ ہے کہ اگر ہمیں بلوچستان کے کسی دور افتادہ گاؤں سے بلاوہ آ جائے کہ آ کر گدھا گاڑیوں کی ریس کی صدارت کرلو تو ہم سر کے بل وہاں پہنچ جائیں گے ۔اور بیچارے بلوچستان کا کیا ذکر، لاہور میں آئے دن ایسے سیمینار اور تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں جہاں مقررین کا یہ حال ہوتا ہے کہ سامنے بے شک آدھ درجن سامعین بیٹھے ہوں وہ اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی بور ترین تقریر مکمل کرکے دم لیں گے ۔اور اب یہی لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ ملالہ ،جس نے اقوام متحدہ میں تقریر کر کے پاکستان کی شان بڑھائی،اسے اقوام متحدہ نہیں جانا چاہئے تھا ،اور نوبل انعام تو بالکل ہی وصول نہیں کرنا چاہئے ،جبکہ خود انہیں واٹر کولر بھی انعام میں ملے تو یہ انکار نہ کریں ۔
دراصل قصور ہماری قوم کا بھی نہیں ،انہیں سالہا سال سے جو پٹّی پڑھائی جا رہی ہے وہ آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کئے جا رہے ہیں ۔ یہ پٹّی نصابی کتابوں کے ذریعے پڑھائی جاتی ہے ،نام نہاد مقبول عام نظریات کے ذریعے پڑھائی جاتی ہے، پیروں فقیروں اور ”صاحب کشف بزرگوں“ کے ذریعے پڑھائی جاتی ہے اور آج کل یہ پٹّی سوشل میڈیا کے ذریعے پڑھائی جارہی ہے ۔یہ وہ narrativeہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک میں ہاٹ کیک کی طرح بک رہا ہے ،اور جو شخص بھی اس narrativeسے مطابقت نہیں رکھتا اسے عوام میں پذیرائی نہیں ملتی چاہے وہ ملالہ کی طرح ملک کے لئے عظیم الشان عزت کا باعث ہی کیوں نہ بن جائے ۔اس جھوٹے فلسفے کو عریاں کرنا سیاسی جماعتوں خاص طور پر حکومتی پارٹی کا کام ہوتاہے ،لیکن ہم جیسے ممالک میں پارٹیاں اتنی ہمت کم ہی دکھاتی ہیں۔ ظاہر ہے پھانسی اور جلا وطنی کون چاہتا ہے؟
تازہ ترین