• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکان کے لیے جمع شدہ رقم پر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہے (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

’’معراج الدرایہ‘‘ کی فصل زکوٰۃ العُروض میں جو بیان کیا گیا ہے ،وہ اس کے خلاف ہے کہ نقد رقم خواہ تجارت کی نیت سے رکھی گئی ہو یا خرچ کرنے کی نیت سے ،اختتامِ سال پر بہر حال اُس پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور ’’بَدَائع الصنائع‘‘ میں نَمَائِ تقدیری (Potentioal Growth)میں یہی کہا گیا ہے،(البحرالرائق ، جلد2، ص: 361)‘‘۔علامہ ابن عابدین شامی نے ان دونوں اقوال میں اس طرح تطبیق کی ہے :ترجمہ:’’پس بہتر یہ ہے:ـ’’بدائع الصنائع ‘‘وغیرہ میں جو کہا گیا ہے ، اُس کی تطبیق اس طرح کی جائے :اگر اُس نے پیسہ اس لیے جمع کیا کہ اپنی حاجات پر خرچ کرے گا ،اس دوران سال پورا ہوگیا اور اُس میں سے کچھ پیسہ بچ رہا جو(یعنی یہ رقم یااُس کے پاس موجود دیگر مال کے ساتھ مل کر) مقدارِ نصاب کے برابر ہے ،تواس باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے گا، خواہ اُس کا ارادہ اِسے مستقبل میں (اپنی حاجات پر) خرچ کرنے کا ہو، کیونکہ سال پورا ہونے پر (یا سال کے دوران) یہ رقم حاجاتِ اصلیہ پر خرچ نہیں ہوئی،(ردالمحتار علی الدرالمختار جلد3، ص:167)‘‘۔مفتی وقارالدین قادری ؒ سے سوال کیاگیا:’’ اگرکوئی مسلمان مالک نصاب ہے، لیکن اس کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں ہے، یعنی رہائش جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے ،توکیاایسے شخص پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس کی بنیادی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا ؟

اسی طرح سواری بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے ،آیا ایک شخص جو صاحبِ نصاب ہے ،اپنے کل مال سے سواری کے لیے رقم منہاکرکے باقی رقم سے زکوٰۃ اداکرے ،کیا ایساکرنا جائز ہے ؟،(سائل: احمد رضا فاروقی ،کراچی)‘‘۔آپ نے جواب میں لکھا:’’ زکوٰۃ ایک ایسا فریضہ ہے، جس کی فرضیت قرآن وحدیث سے ثابت ہے،قرآن میں اِسے سائل اور محروم کا حق بتایا گیا ہے۔ زکوٰۃ غریب کا ایساحق ہے، جو اللہ تعالیٰ نے صاحبِ نصاب کے مال میں شامل کیا ہوا ہے ۔لہٰذا جو شخص نصاب کا مالک ہوگا ،تو سال کے اختتام پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے،اس میں یہ نہیں دیکھاجائے گا کہ مکان بنانے ،بچوں کی شادی،سواری خریدنے اور حج کرنے کے لیے اُس کی آئندہ ضروریات کیا ہیں۔ 

جو رقم اس کے پاس رکھی ہے اگروہ نصاب کو پہنچتی ہے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔سال پورا ہونے سے پہلے جو خرچ کرلیا ،اس کی زکوٰۃ نہیں ،(وقار الفتاویٰ ،جلددوئم ، ص: 392 - 393 ) ‘‘۔پس ہماری رائے میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ کسی نے اپنی حاجاتِ اصلیہ کے لیے رقم پس انداز کر رکھی ہے ،مگر ابھی اُس کے خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئی اور اس رقم پر سال گزرچکاہے، تو اختتامِ سال پر اُس کی زکوٰۃ دینی ہوگی عیدالفطر کے دن صدقۂ فطر اور عید الاضحی کے موقع پراس پر قربانی واجب ہوگی ،اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گااور اُس کی جائز حاجات پورا کرنے کے لیے رزق میں کشادگی فرمائے گا۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین