• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک مسجد کے مؤذّن صاحب عرصۂ دراز سے مسجد کے فنڈ میں خرد برد کررہے ہیں اور کئی مرتبہ پکڑے گئے ، لیکن اپنے عمل سے باز نہیں آتے ۔ اب کیا انہیں ان کے منصب سے معزول کردینا چاہیے ؟(ایک سائل )

جواب: اگر آپ کا بیان درست ہے کہ مؤذّن نے مسجد کا فنڈ غبن کیاہے اورباربار اس امر کا ارتکاب کرتارہاہے ،توٹھوس ثبوت کی بنیاد پراُس کو منصب سے ہٹایاجاسکتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے اور مؤذن (اوقات صلوٰۃ کے شروع ہونے کا اعلان کرنے میں)امین ہے ،اے اللہ! اماموں کو ہدایت عطا فرما اور مؤذّنوں کی مغفرت فرما، (سُنن ترمذی : 207)‘‘۔

جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی ، ان عادات کا مرتکب فاسق ہے ،تاوقتی کہ سچی توبہ کرے اور آئندہ ان حرکات سے اجتناب کرے۔ فاسق کو مسجد میں باقاعدہ مؤذّن مقرر کرنا درست نہیں ہے ۔فاسق کی اذان کے بارے میں فقہی احکام یہ ہیں:علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:’’فاسق کی اذان مکروہ ہے اور اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا، ’’ذخیرہ‘‘میں اسی طرح ہے اور جنبی(یعنی جس پر غسل واجب ہے)کی اذان واقامت بہ اتفاقِ روایات(فقہی) مکروہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اذان کا اعادہ کیا جائے اور اقامت کا اعادہ نہ کیا جائے، (عالمگیری ، ج:1، ص:54)‘‘۔ بشری کمزوریاں تو سب میں ہوتی ہیں اور مُتَنَبّہ کرکے ان کو اصلاح کا موقع دینا چاہیے ۔لیکن جب کوئی ان اَخلاقی جرائم پر جری ہوجائے ، تو اس کامؤذّن کے منصب پر برقرار رکھنا شرعی وقار کے منافی ہے۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین