• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کی جانب سے ملالہ کے یوم پیدائش کو ”ملالہ ڈے“ سے منسوب کیا گیا ہے جس کا مقصد دہشت گردی اور جہالت سے جنگ لڑنے والی ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنا اور تعلیم کے حصول کیلئے اس کی جدوجہد کو دنیا بھر میں روشناس کرانا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ جمعہ کو ملالہ کی 16 ویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی پاکستان کی وادی سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی تھی جسے گزشتہ برس طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ سالگرہ کی یہ تقریب کوئی عام تقریب نہیں تھی اور نہ ہی اس میں شرکت کرنے والے عام افراد تھے جبکہ تقریب میں نہ سالگرہ کی تقریب کی طرح کیک کاٹے گئے اور نہ ہی شمعیں روشن کی گئیں۔ تقریب کا انعقاد اس جگہ کیا گیا تھا جہاں دنیا کے مستقبل کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ مہمانوں میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، ان کی اہلیہ، سابق برطانوی وزیراعظم اور تعلیم کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب گورڈن براؤن اور دنیا کے 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے شریک ہوئے۔ ”برتھ ڈے گرل“ ملالہ شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر دوپٹہ اوڑھے اور جسم کو سفید شال سے ڈھانپے اپنے والدین کے ہمراہ سادگی اور عظمت کا نمونہ بنے جب جنرل اسمبلی کے ہال میں داخل ہوئی تو وہاں موجود اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، ان کی اہلیہ، سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن اور دنیا بھر سے آئے ہوئے بچوں نے کھڑے ہوکر اور تالیاں بجاکر اس بچی کا استقبال کیا۔ اس موقع پر سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج کا دن کسی معجزے سے کم نہیں، آج ہم اس لڑکی کی سالگرہ منارہے ہیں جسے طالبان ختم کرنا چاہتے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ملالہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ملالہ کو میں اپنا دوست سمجھتا ہوں اور اقوام متحدہ نے آج کے دن کو ”ملالہ ڈے“ قرار دیا ہے۔ جب ملالہ کو خطاب کیلئے مدعو کیا گیا تو وہ بڑے وقار اور اعتماد کے ساتھ چلتی ہوئی سیکورٹی کونسل کے اس پوڈیم پر آئی جہاں اس سے قبل دنیا کے بڑے لیڈرز بارک اوباما، جارج بش، نیلسن منڈیلا، یاسر عرفات، بے نظیر بھٹو اور ہیوگوشاویز جیسے رہنما خطاب کرچکے ہیں۔
ملالہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”ملالہ ڈے“ صرف میرا دن نہیں بلکہ ہر اُس لڑکے اور لڑکی کا دن ہے جس نے اپنی آواز اپنے حقوق کیلئے اٹھائی اور میں ان کی آواز ہوں، طالبان کا خیال تھا کہ ان کی گولی ہمیں خاموش کردے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، اس گولی سے کمزوری اور ناامیدی مر گئی اور طاقت و حوصلے کو نئی زندگی ملی، میں وہی ملالہ ہوں، میرے عزائم، امیدیں اور حوصلے وہی ہیں، اگر آج مجھ پر گولی چلانے والا میرے سامنے آجائے تو میں اس پر گولی نہیں چلاؤں گی کیونکہ میں دنیا میں امن، علم، عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات پر یقین رکھتی ہوں جس کا سبق پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، لارڈ بدھا، مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا، محمد علی جناح اور گاندھی نے دیا تھا۔ ملالہ کا کہنا تھا کہ قلم اور کتاب دنیا کے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں، ایک طالب علم، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا بدل سکتے ہیں، دہشت گرد قلم کی طاقت سے ڈرتے ہیں، عورت کی آواز کی طاقت سے ڈرتے ہیں، اسی لئے انہوں نے کوئٹہ میں میڈیکل کی 14 معصوم طالبات کو مار ڈالا، اسی لئے انہوں نے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں خواتین اساتذہ اور پولیو ورکرز کو ہلاک کیا، اسی لئے وہ ہر روز اسکول جلا رہے ہیں۔ اپنی تقریر میں ملالہ نے یہ بھی کہا کہ مجھے فخر ہے کہ جو شال اس نے اوڑھی ہوئی ہے وہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی ہے جو طالبان کی دہشت گردی کی شکار ہوئیں۔ اس موقع پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور وہاں بیٹھے طالب علم ہم آواز ہوکر نعرے لگانے لگے ”ہم سب ملالہ ہیں“۔ یہ پہلی بار ہوا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نعرے بلند ہوئے ہوں۔ واضح ہو کہ نیلسن منڈیلا کے بعد اگر اقوام متحدہ میں اتنی پذیرائی کسی مقرر کو ملی تو وہ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی تھی جس کی تقریر کو دنیا کے تمام چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ اس موقع پر ہال میں بیٹھی ملالہ کی ماں اور وہاں موجود دوسرے افراد کی آنکھیں آنسوؤں سے پُر تھیں۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے میں بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکا، یہ خوشی کے آنسو تھے۔ ہم پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں کہ خوشی کے موقع پر بھی رو دیتے ہیں۔ میں ملالہ کی تقریر سنتے ہوئے اتنا منہمک ہوگیا کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ میں افطار کیلئے سعودی قونصل جنرل کے گھر مدعو ہوں، اس طرح میں اس تقریب میں نہ جا سکا۔ حال ہی میں ”ملالہ ڈے“ کے حوالے سے ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے گریمی ایوارڈ یافتہ پروڈیوسر نے ”آئی ایم ملالہ“ کے نام سے گانے کی وڈیو ریلیز کی ہے۔ اس گانے میں دنیا بھر سے 30 گلوکارائیں دہشت گردی اور جہالت سے جنگ لڑنے والی ملالہ کو سلام پیش کررہی ہیں۔ گانے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ملالہ فنڈ کو دی جائے گی جسے دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔کچھ عرصہ قبل جب طالبان نے ملالہ کو سر میں گولی ماری تھی تو طالبان کا یہ خیال تھا کہ خوف کی فضا پھیلا کر لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جاسکے گا مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک اندازے کے مطابق ملالہ کے واقعہ کے بعد سوات میں 2013ء کے پہلے 6 ماہ میں ایک لاکھ 2 ہزار 374 لڑکیوں نے پرائمری اسکولوں میں داخلہ لیا جو 2012ء کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ کی بہادری سے متاثر ہوکر لڑکیوں میں اعتماد اور حوصلے نے جنم لیا، لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی آگاہی پیدا ہوئی اور ان میں طالبان کا پہلے جیسا خوف نہیں رہا۔ افسوس ایسے میں جب پوری دنیا ملالہ کا دن پرجوش طریقے سے منارہی تھی وفاق اور ملالہ کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے اس سلسلے میں بالکل خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور ملالہ ڈے کے حوالے سے کوئی تقریب پاکستان میں منعقد نہیں کی گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ”ملالہ ڈے“ پاکستان میں بھی اتنے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا جیسے اقوام متحدہ میں منایا گیا مگر ایسا لگتا ہے۔
ایسے میں جب ملالہ کی تقریر کے اختتام پر ہال میں موجود افراد کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر اسے خراج تحسین پیش کررہے تھے، ملالہ آج کی تقریب کا چمکتا ہوا ستارہ تھی جس نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا کیونکہ آج ملالہ نے دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اس جیسے بہادر اور جرأت مند لوگ بھی جنم لیتے ہیں۔ ملالہ کی تقریر کے یہ الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ”میں ایسی لڑکی کے طور پر اپنی پہچان نہیں کرانا چاہتی جسے طالبان مارنا چاہتے تھے بلکہ میری پہچان ایسی لڑکی کے طور پر ہو جس نے اپنے حقوق کیلئے لڑا۔ میں طالبان سے کوئی بدلہ نہیں لینا چاہتی بلکہ ان کے بچوں کیلئے بھی تعلیم چاہتی ہوں“۔ اقوام متحدہ میں ملالہ ڈے کی کامیابی اور ملالہ کی تاریخی تقریر کے بعد وہ ”نوبل پرائز برائے امن“ کیلئے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ملالہ کے حوالے سے قوم یہ خوشخبری بھی سنے گی۔”قوم کی بیٹی ملالہ، ہپی برتھ ڈے، ملک کا نام روشن کرنے پر قوم تمہاری مشکور ہے“۔
تازہ ترین