• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تقریباً پانی میں ڈوپ چکا تھا ،میری ناک اور اب منہ میں بھی پانی جانا شروع ہوچکا تھا ،ہاتھ پیر شل ہوچکے تھے اور اب شاید ہمت بھی جواب دے چکی تھی ،آخری دفعہ جب پانی کی سطح سے باہر آیا تو صرف اتنا ہی نظر آیا کہ قرب و جوار کے کسی فرد کو بھی اندازہ نہ تھا کہ میں پانی میں ڈوب رہا ہوں، سب پانی کی سطح پر اپنی موج مستیوں میں مگن تھے لیکن ان میں ایک فرد ایسا بھی تھا جس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے اور پھر میں مستقل طور پر پانی کے اندر جانے کے لئے ڈوبا تو ایک مضبوط ہاتھ میرے بالوں سے ٹکرایا اور ایک لمحے میں مجھے پانی سے ہی نہیں موت کے منہ سے بھی نکال لیا ،مجھے گود میں لیا اور ساحل پر لاکر ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو،یہ تھے میرے والد ، ایک باپ جو کبھی اپنی اولاد کی جانب سے بے خبر نہیں ہوتا ، ان کی گود کا وہ لمس آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے ، بچپن میں پیش آنے والا یہ واقعہ زندگی بھر یادوں میں تازہ رہاہے ، میرے والد اپنے دس بہن بھائیوں میں انتہائی ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے ،ہمیشہ انھیں بڑوں کا ادب کرتے دیکھا ، اپنے والد کا اتنا احترام کرتے کہ شادی شدہ اور چھ بچے ہوجانے کے بعد جب بھی ان کے والد ہمارے گھر تشریف لاتے تو میرے والد ایک پیر پر کھڑے ہوجاتے ، میرے والد سگریٹ پیا کرتے تھے لیکن کئی دفعہ اچانک اپنے والد یا بڑے بھائی کو دیکھ کر جلتی سگریٹ ہاتھ سے بجھا دیا کرتے یا کبھی اپنی پینٹ کی جیب میں بجھانے کی کوشش کرتے ، میں نے ان کا جلد بازی میں سگریٹ بجھانے کا یہ عمل خود بھی کئی دفعہ دیکھا جس سے کبھی ان کے ہاتھ یا کبھی ان کی پینٹ جل جاتی لیکن وہ اپنے والد کے سامنے اسی طرح ادب و احترام سے کھڑے رہتے ، ستر کی دہائی کے آخری عشرے میں وہ ملازمت کے لئے سعودی عرب گئے، ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنی والدہ کو حج کراسکیں ، ﷲ تعالیٰ نے وہ خواہش بھی پوری کی ، ان کی والدہ نے 1978 میںاپنے بیٹے اور میرے والدکے ساتھ حج کیا اور جو خدمت اس حج کے دوران میرے والد نے اپنی والدہ کی کی، میری دادی آخری وقت تک والد صاحب کو جھولی پھیلا کر دعائیں دیا کرتیں ، وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتے ، وہ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے ، خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ سے ان کو بہت زیادہ محبت تھی، 60 سال کی عمر سے قبل ہی جب ہم سب بھائی بہن معاشی طور پر سیٹل ہوچکے تو ہم نے ضد کرکے انھیں ملازمت سے ریٹائرمنٹ دلوادی ، جس کے بعد ان کا صرف ایک ہی مقصدتھا کہ جلد سے جلد عمرے پرجائیں،کئی دفعہ جاپان بھی آئے لیکن ہمیشہ اداس ہی لگے ان کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ جو بات مکہ اور مدینہ میں ہے وہ دنیا کے کسی حصے میں نہیں ، پھر ہماری بھی کوشش ہوتی کہ جب ممکن ہوسکے انھیں عمرہ پر ہی بھیجا جائے ، وہ اپنے کئی پرانے دوستوں اور کئی سفید پوش عاشقان رسولﷺ کو اپنی جانب سے عمرے پر لے جاتے اور بہت خوش ہوا کرتے ، آخری دس برسوں میں خاموش طبع ہوگئے تھے ،مسجد میں باجماعت نماز ادا کیا کرتے ، امام مسجد کے پیچھے ان کی جگہ مقر ر ہوچکی تھی لیکن اس جگہ کے حصول کے لئےوہ وقت سے پہلے مسجد پہنچا کرتے ، وہ یتیموں ، مسکینوں اور بیوائوں کی امداد کیا کرتے ، سفید پوش افراد کو ڈھونڈ کران کی مدد کرتے ، کبھی اپنی نیکی کا تذکرہ نہیں کرتے تھے،اپنی طرف سے کسی کو تکلیف نہیں دی ، ہماراچھ بھائی بہنوں اور بچوں سمیت 25 افراد کا کنبہ ہے ہم سب شام کو ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے لیکن جہاں ابا کے کمرے کا دروازہ کھلتا اور ایک آواز آتی ابا آگئے وہیں پورےکمرے میں خاموشی ہوجاتی ،لیکن پھر والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے اور ایک دفعہ پھر ہنسی مذاق شروع ہوجاتا ، میری جاپانی اہلیہ اور دونوں بچوں سے بہت محبت کرتے ،میرے بچے چھ کلمے ،درود شریف ،دعائے قنوت ریکارڈ کر کے والد صاحب کو بھجوایا کرتے جس پر وہ بہت خوش ہوا کرتے ،سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ،لیکن پھر کورونا کی وبا لاکھوںافراد کو اپنے پیاروں سے جدا کرکے لے گئی، والد صاحب بھی عیدالاضحی پر اس وبا کا شکار ہوئے ، حالت خراب ہوئی تو اسپتال میں داخل کرایا ،میں اگلے دن کراچی پہنچ گیاتھا جس کے بعد سترہ دن وہ اسپتال میں داخل رہے ، جب بھی ان سے ملنے کا موقع ملتا وہ گھر واپس جانے کی ضدکرتے ، پندرہ دن بعد ان کا کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا یعنی کورونا ختم ہونے کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ کورونا ختم ہوگیا ہے لیکن ان کے پھیپھڑے بھی ختم کرگیا ہے زندگی بچنا بہت مشکل ہے پھر ایک دفعہ انھیں وینٹی لیٹر پر لے جانے کی ضرورت پڑی ، پھر حالت سنبھل گئی ،ایمبولینس میں انھیں گھر لائے کمرے میں منتقل کیا ، فجر کا وقت تھا ہمیشہ کی طرح وہ ٹی وی پر خانہ کعبہ کی براہِ راست نشریات دیکھ رہے تھے،کارڈیک مانیٹر ان کی سانسیں اب بہتر دکھا رہا تھا ہم سب مطمئن تھے کہ شاید اب بہتر ہوجائیں گے اگلے تین گھنٹے سب کچھ ٹھیک رہا لیکن پھر ان کی سانسیں بے ترتیب ہونا شروع ہوئیں اور ایک گھنٹے بعد اپنے کمرے میں وہ اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ، آج ان کا سوئم تھا، امام صاحب بتارہے تھے کہ مسجد کی تعمیر میں انھوں نے کیا حصہ ڈالا ،مدرسے کے لئے کیا کام کیا ، یتیم بچیوں کی شادیوں میں کس رازداری سے حصہ ڈالا ، مستقل نمازی تعزیت کررہے ہیں ، دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ میرے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے ، آمین ۔

تازہ ترین