• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظرعام پر آجانے کے بعد ملک بھر میں مختلف ٹی وی چینلوں کے اینکر پرسن کمیشن کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کے ساتھ ساتھ اپنی خود سفارشات بھی پیش کررہے ہیں۔اس رپورٹ کے منظر عام پر آجانے سے عوام کو بھی حقیقت حال جاننے کا موقع ملا ہے۔ مگر میں کمیشن کی رپورٹ پر کچھ کہنے کے بجائے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مملکتِ خداداد پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔اگر ماضی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی کامیاب ترین پہلی پانچ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک تھی اور بھارت کے لئے یہ ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی بلکہ بھارتیوں کو ہر معاملے میں آئی ایس آئی ہی ملوث نظر آتی تھی لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری یہ عالمی شہرت یافتہ ایجنسی اپنے ملک کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو وقت سے پہلے روکنے اور دو مئی کے امریکی حملے کے بارے میں کسی قسم کی معلومات رکھنے سے قاصر رہی۔ پاکستان میں اس وقت آئی ایس آئی، ایم آئی ،آئی بی، سی آئی ڈی، این ایس اے، ایف آئی اے کی طرح کی آٹھ یا نو کے قریب انٹیلی جنس ایجنسیز کام کررہی ہیں۔آئی ایس آئی اور ایم آئی کی کامیابیوں کے بارے میں تو سب کو آگاہی حاصل ہے لیکن پاکستان کی سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کامیابیوں کے بارے میں شاید ہی کبھی کسی نے کچھ سنا ہو۔
وزیراعظم میاں نوازشریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک دہشت گردوں کے 32 حملوں کے نتیجے میں 204 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی ملکی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دینا شروع کردی ۔میاں نواز شریف ملک کو بلٹ ٹرین کی مانند تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ پاکستان اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے جب تک ملک میں دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو نہ پالیا جائے۔ ان حالات میں بہت ہی کم غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور وہ بھی قدم پھونک پھونک کر۔ غیر ملکی سرمایہ کار اب پاکستان کے بجائے دبئی یا کسی اور ملک میں پاکستانیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی آمد بڑھانے کے لئے پاکستان کے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا اور دہشت گردی کو ختم کرنا ضروری ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں۔
دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے پاکستان کے ایک یا دو شہروں کوفول پروف سیکورٹی والے شہر بنانا ہوگا۔اس کے لئے اسلام آباد، لاہور یا پھر کسی دیگر شہر کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ شہر کے انتخاب کے بعد اس شہر میں نئے سرے سے پولیس کے نظام کو متعارف کرانا ہوگا۔ اس مقصد کے لئے پارلیمینٹ سے قانونی بل پیش کرتے ہوئے منظوری بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا اس سلسلے میں ساتھ دینے سے نہیں گھبرائیں گی کیونکہ یہ تمام جماعتیں دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہیں اور وہ بھی اس کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ نئی پولیس فورس کو تیار کرنے میں میرٹ کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا۔ یہاں پر موٹر وے پولیس کی طرز کے میرٹ ہی کو اپناناہوگا۔ اس جدید پولیس میں موجودہ پولیس سے ایک شخص کا بھی ٹرانسفر نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ اِن کے سائے سے بھی دور رکھنا چاہئے۔ جدید طرز کی اس پولیس کی تنخواہیں اچھی ہونی چاہئیں تاکہ پولیس کے دل میں رشوت لینے کا خیال ہی نہ آئے۔ اس محکمے کو سیاست سے دور رکھا جائے اور وزراء تک کو ان کے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہ دیا جائے۔ نئی پولیس کے تمام اہلکاروں کی ایک خاص مدت کے لئے ٹریننگ غیر ممالک ہی میں کی جانی چاہئے اور وہاں پر ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ہی ان کو اس نئی پولیس میں کام پر مامور کیا جائے۔ ایک شہر میں فول پروف سیکورٹی کے قائم ہونے سے رشوت اور دیگر بدعنوانیوں کا مکمل طور پر قلع قمع ہو جائے گا جس کے اثرات عوام پر بھی مرتب ہوں گے اور معاشرے میں اصلاح کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ ایک شہر میں اس نظام کے کامیابی سے ہمکنار ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ اسے دیگر شہروں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے جس طرح ملک میں فوج کا محکمہ وفاقی حکومت کے تحت کام کرتا ہے۔
اسی طرح پولیس کے اس نئے محکمے کو بھی وفاق کی نگرانی میں دیا جاسکتا ہے تاکہ صوبے اس نئے محکمے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرسکیں اور یوں اس نئے محکمے کو سیاست کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس پولیس سسٹم کو متعارف کرانے کے بعد اسی شہر میں جدید طرز کے شفاف پولیس اسٹیشن بھی قائم کئے جانے چاہئیں اور یہاں پر کیمرے نصب کرتے ہوئے ان کا رابطہ پولیس ہیڈ کوارٹر سے قائم کر دیا جائے تاکہ چوبیس گھنٹے ان پولیس اسٹیشنوں کی نگرانی ہوتی رہے۔ ابتداء میں ان پولیس اسٹیشنوں میں پبلک کو مدعو کرتے ہوئے اس نئے پولیس سسٹم اور نئی پولیس کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے اور ان کے دلوں سے پولیس کے خوف کو دور کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم جناب نواز شریف سے گزارش ہے کہ اس نظام کو جلد از جلد متعارف کرائیں اور پھر اپنے ترقی کے منصوبوں کی بنیاد رکھیں ورنہ میٹرو بس اور انڈر گراونڈ ریلوے جیسے منصوبے بھی صرف خواب ہی ثابت ہوں گے۔ اب ملک میں پولیس کے نظام کو جدید طرز پر استوار کرنا بے حد ضروری ہے۔ ایک شہر میں اس نظام کے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے بعد اسے دوسرے اور پھر تیسرے شہر اور پھر پورے پاکستان تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس پروجیکٹ پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے لیکن یقین کیجئے یہ اخراجات پولیس کی بدعنوانی کی وجہ سے حکومت تک نہ پہنچنے والے ٹیکس اور دیگر آمدنی کے مقابلے میں بہت کم ہوں گے۔حکومت اس پروجیکٹ پر جتنی جلدی عملدرآمد شروع کرے گی اس کے نتائج بھی اسی سرعت سے برآمد ہوں گے۔ یہ پروجیکٹ حکمراں جماعت کے لئے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔ آپ اس سے قبل بھی ناممکن منصوبوں کو ممکن بنا کر اپنے مخالفین پر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ دہشت گردی کے کینسر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب اس موذی مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وقت آن پہنچا ہے اور اب اس کام میں مزید تاخیر کرنا ہر گز کوئی دانشمندی نہیں اور نہ ہی یہ ملک اور معاشرہ اب اس میں مزید تاخیر کا متحمل ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین