• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: اُسامہ صدیق

ترجمہ: عاصم بخشی

صفحات: 480، قیمت: 1200 روپے

ناشر: بُک کارنر جہلم۔

یہ ناول 2017ء میں پہلی مرتبہ انگریزی میں ’’ SNUFFING OUT OF THE MOON‘‘ کے نام سے شایع ہوا، اگلے برس انگریزی ہی میں اس کا پیپر بیک ایڈیشن چَھپا، اب اِسے پہلی مرتبہ بُک کارنر، جہلم نے اپنے روایتی اعلیٰ طباعتی معیار کے ساتھ اُردو زبان میں شایع کیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنّف بنیادی طور پر ماہرِ قانون ہیں اور ان کی برّصغیر کی قانونی تاریخ پر تحریر کردہ انگریزی کتاب بھی خاصی مقبولیت سمیٹ چُکی ہے۔ اُنھوں نے آکسفورڈ اور ہاورڈ جیسی جامعات سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ زیرِ تبصرہ ناول کو پانچ ابواب میں( جنھیں کتاب کا نام دیا گیا ہے) تقسیم کیا گیا ہے، جو مزید ذیلی عنوانات پر مشتمل ہیں۔ مختلف تہذیبوں کے عروج وزوال کے پس منظر میں لکھے گئے اِس ناول میں اُن انسانی رویّوں کو موضوع بنایا گیا ہے، جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ 

ناول کا آغاز دو ہزار قبل مسیح کے موہن جو دڑو سے کیا گیا ہے، پھر گندھارا کی راج دھانی، ٹکشا سیلا( 455ء)، مغل بادشاہ جہاں گیر کا عہد( 1620ء) اور 1857ء کے برطانوی ہند سے ہوتے ہوئے قاری کو 2009ء کے پاکستان میں پہنچایا گیا ۔ اگلے مرحلے میں اُسے 2084ء کے قلعہ روہتاس کیمپ لے جایا گیا ہے۔ 

یوں ماضی کے اسباق، حال کی تشخیص اور مستقبل کے امکانات و خدشات کا کچھ ایسی ماہرانہ چابک دستی سے احاطہ کیا گیا ہے کہ قاری اِن تینوں ادوار کو اپنی نظروں کے سامنے پاتا ہے۔مصنّف نے تاریخ کے اِس مطالعے میں اُن امراض کا کسی ماہر طبیب کی طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے، جو مذہب، روایات، طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال کے نتیجے میں معاشرے کو بربادی کی راہ پر گام زن کرتے ہیں۔ تخیّل کا کمال یہ ہے کہ مصنّف نے کھنڈرات میں بھی زندگی تلاش کرلی ہے، باریک بینی ایسی کہ جزئیات تک اِدھر اُدھر نہ ہونے پائیں اور پھر پیش بینی نے یہ کمال دِکھایا کہ نصف صدی بعد کے زمانے کے لیے پیش بندی کا سامان فراہم کردیا گیا۔

اِس طرح کے ضخیم ناولز میں آخر تک گرفت کم ہی مضبوط رہتی ہے، مگر کہانی کے پھیلاؤ، کرداروں کی کثرت، اُتار چڑھاؤ اور مختلف زمانوں کے سفر کے باوجود تحریر میں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ کہانی کہیں بھی گھومتی رہے، اپنے مرکز سے بندھی رہتی ہے۔جس زمانے کی بات کی گئی، کردار، ماحول اور مکالمے بھی اُسی کے مطابق تخلیق کیے گئے۔شمس الرحمان فاروقی جیسے نقّاد، افتخار عارف، اصغر ندیم سیّد اور مستنصر حسین تارڑ جیسے ماہرینِ فن نے اِسے’’ بہترین‘‘ کی سند سےنوازا ہے۔ ناول کا مزہ اپنی جگہ، مگر ترجمے کی داد نہ دینا بھی بخیلی ہوگی۔

مترجّم، ڈاکٹر عاصم بخشی نیشنل یونی ورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف جرائد میں اُن کے تراجم شایع ہوتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے اُردو تراکیب کا اِس قدر خُوب صُورتی سے استعمال کیا ہے کہ ناول پڑھتے ہوئے اُردو کی چاشنی روح تک کو سرشار کرجاتی ہے۔ نیز، ہندی اور پنجابی مکالمے اِس لُطف کو دوآشتہ کرتے ہیں، گو کہ اِس پر فنی لحاظ سے بات ہوسکتی ہے کہ اُردو ترجمے میں دیگر زبانوں کا یوں استعمال کہاں تک مناسب ہے؟ مگر یہ اَمر بھی پیشِ نظر رہے تو بہتر ہوگا کہ اگر مکالمے اِن زبانوں میں نہ دیے جاتے، تو اُن مناظر میں رنگ بَھرنا ممکن ہی نہ ہوپاتا، جہاں مصنّف قاری کو لے جانا چاہتے ہیں۔ سرِورق کتاب میں شامل مواد کا عکّاس ہے اور کیا ہی خُوب انتخاب ہے۔

تازہ ترین