• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستاان کے ارکان کی اہلیت میں تبدیلی لانے کا اصولی فیصلہ موجودہ انتخابی نظام کو مزید بہتر بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے جس کی ضرورت طویل عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اب جبکہ کمیشن کے موجودہ چار ارکان 10جون کو ریٹائر ہورہے ہیں جن کی جگہ نئے ارکان کی تقرری کا مرحلہ درپیش ہے تو اس بارے میں سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے حتمی فیصلہ ضروری ہو گیا تھا۔ گزشتہ ماہ کی 18تاریخ کو انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں ہوا جس میں ایک ذیلی کمیٹی سے کمیشن کے ارکان کی اہلیت پر نظرثانی کیلئے تجاویز مانگی گئیں۔ کل پارلیمانی پارٹی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں ان تجاویز پر غور کیا جس کے نتیجے میں اہلیت کے معیار میں تبدیلی اور اسے قانونی شکل دینے کیلئے آئینی ترمیم کا طریق کار طے کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی پیر سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کی جائے گی جو بجٹ اجلاس بھی ہے۔ موجودہ طریق کار جو آئین کے آرٹیکل 213میں درج ہے، کے مطابق الیکشن کمیشن کارکن وہی شخص بن سکتا ہے جو کسی ہائیکورٹ کا سابق جج ہو۔ اس طرح چاروں ارکان پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہائی کورٹس کے سابق جج ہوتے ہیں۔ مجوزہ طریق کار کے تحت اب سپریم کورٹ کے موجودہ اور ریٹائرڈ ججوں کے علاوہ گریڈ 22کے مساوی عہدہ کے موجودہ اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی 3سال کیلئے رکن بننے کے اہل ہوں گے۔ اس کے علاوہ اچھی شہرت کے حامل ٹیکنوکریٹس اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد بھی رکن بن سکیں گے۔ اس سلسلے میں قانونی مسودہ تیار کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات ہمیشہ اعتراضات کی زد میں رہے ہیں اور انہیں شفا ف غیرجانبدار اور منصفانہ بنانے کے حق میں ضروری اصلاحات لانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے باقاعدہ جوڈیشل کمیشن بنا جس نے اپنا فیصلہ بھی دیا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات متعارف کرانے کیلئے کمیٹی بنائی جو ابھی اپنا کام مکمل نہیں کرسکی تاہم وہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی اہلیت کی حد تک ایک نتیجے پر پہنچ گئی ہے تاکہ نئے ارکان کا تقرر اس کے مطابق کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن میں بیورو کریٹس کے تقرر کا تصور کوئی نیا نہیں، پہلے بھی بیوروکریٹس کمیشن کے چیئرمین یا رکن بنتے رہے ہیں لیکن ان پر اعتراضات ہونے لگے اور انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھنے لگے تو سوچا گیا کہ ریٹائرڈ جج الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے میں زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہ تجربہ بھی اعتراضات سے نہ بچ سکا اور ناقدین نے کہا کہ ججوں کو انتظامی تجربہ نہیں ہوتا اس لئے وہ انتظامیہ کو پوری طرح اپنی گرفت میں نہیں لا سکتے اسلئے بیوروکریٹس کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہی الیکشن کمیشن کے سربراہ اور رکن ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں، مقامی حکومتوں اور صدر مملکت کے انتخاب کے علاوہ انتخابی حلقہ بندیوں اور رائے دہندگان کی فہرستوں کی تیاری کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔انتخابی عذرداریوں کی صورت میں اسے عدالتی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کے فیصلوں پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ ہی نظرثانی کی مجاز ہے۔ آئین کے تحت کمیشن مکمل مالی اختیارات کے ساتھ حکومتی مداخلت اور اثرورسوخ سے آزاد ایک مکمل خودمختار ادارہ ہے اس لئے اس کی تشکیل، اس کے ارکان کی اہلیت اور ان کے تقرر کے سوال پر سیاسی پارٹیوں میں مکمل اتفاق رائے ضروری ہے۔ پھر انتخابات کی شفافیت کیلئے انتخابی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں جن کے دور دور تک فی الحال کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کے پورے ڈھانچے پر مل بیٹھ کر نظرثانی کریں اور نگران حکومتوں کے ڈھانچے کی طرح اسے بھی سب کیلئے قابل قبول اور قابل عمل بنائیں۔
تازہ ترین