• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں ’’ہائی الرٹ‘‘ تھا‘ اس لئے ضلع کچہری میں سیشن جج کے حکم پر آئی جی پولیس اسلام آباد نے اسپیشل برانچ کے اہلکاروں کو ڈیوٹی پر تعینات کیا کہ وہ کچہری میں داخل ہونے والوں کی تلاشی لیں تاکہ کوئی بھی شخص اسلحہ یا گولہ بارود کے ساتھ کچہری میں نہ آ سکے۔ ’’ہائی الرٹ‘‘ کے موقع پر ذمہ دار اہلکار کسی بھی شخص کو استثنیٰ نہیں دیتے‘ ہر ایک کو مخصوص دروازے سے گزرنا اورتلاشی دینا ہوتی ہے۔ گزشتہ روز سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری کچہری میں داخل ہونے لگے تو ڈیوٹی پر موجود اہلکار نے اپنے سینئر افسران کے حکم کے مطابق نیئر بخاری کی تلاشی لینا چاہی تو بخاری نے نہایت حقارت سے ڈیوٹی اہلکار کو ڈانٹا‘ پھر بھی وہ تلاشی کیلئے آگے بڑھا تو اہلکار( جسے مہذب دنیا آفیسر کہہ کر مخاطب کرتی ہے) کو دھکا دیا اور ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘! نیر بخاری کے جواں سال صاحبزادے نے آگے بڑھ کر ڈیوٹی آفیسر کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ یہ سارا ماجرا نہ صرف درجنوں لوگوں نے دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ خفیہ کیمروں نے بھی اس بدنما اور دلخراش منظر کو محفوظ کر لیا جو مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا جا رہا ہے۔
اب تک یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ کسی بھی سیاسی لیڈر‘ حکومت کے ذمہ دار نے پٹنے والے اہلکار کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہو۔ الٹا حکمران خاندان کے شہزادوں اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے آئی جی پولیس اسلام آباد اور لوگوں کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی مذمت کر ڈالی ‘ اب انہیں سرعام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ دھمکیوں کے الفاظ اور لہجے ٹیلی وژن اسکرین پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آئی جی پولیس کے حکم پر اس واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا لیکن پولیس ملزموں کو پکڑنے میں ناکام رہی۔ جرائم پیشہ سیاستدانوں کی ہمت اتنی جواں ہے کہ انہوں نے پہلے پہل ضمانت قبل از گرفتاری سے بھی انکار کیا اور چیلنج دیا کہ جس میں ہمت ہے ’’آئے کرے شکار مجھے‘‘ ۔ الٹا اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی حفاظت کیلئے پولیس دستے فراہم کرنے کی درخواست دائر کر دی۔ پولیس کے ساتھ جو سلوک سیاستدانوں اور جمہوری سیاسی حکمرانوں نے کیا ہے‘ وہ ہندو معاشرے میں ’’شودر‘‘ یا ’’دلت‘‘ کے ساتھ ہونے والے سلوک سے بھی بدتر ہے۔ پولیس کے جوان کی عزت تو خاک ہو چکی تھی اب ان کی عزت نفس بھی مجروح کی جا رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ڈی آئی جی بہاول پور کو رحیم یار خان سے بہاول پور آتے ہوئے راستے میں ان کے گارڈ اور ڈرائیور نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ دونوں پولیس اہلکار تھے ‘بعد میں انہوں نے گرفتاری پیش کر دی۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ ڈی آئی جی صاحب بدزبانی ‘بدکلامی میں مشہور تھے‘ اپنے ملازمین اور جونیئر افسروں کو گالم گلوچ کرتے‘ ملازمین روز بروز کی بے عزتی پر نالاں تھے۔ وقوعہ کے روز انہوں نے راستے میں کسی معمولی بات پر انہیں ماں بہن کی گالیوں سے نوازا تو طیش میں آ کر انہوں نے گولیاں مار کر ڈی آئی جی کو ہلاک کر دیا‘ خود جرم کا اقرار کر کے جیل چلے گئے۔ایک طرف سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسران پولیس کے نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں‘ معمولی تنخواہ‘ تھوڑی مراعات کے عوض ان سے طویل اور تھکا دینے والی خدمات لی جاتی ہیں‘ پھر ان کو معاوضہ تو کیا دیتے‘ تھوڑی سی عزت اور احترام کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔ اب نیئر بخاری کی ’’لاف زنی‘‘ دیکھئے ‘ فرماتے ہیں میرے خلاف مقدمے کا مقصد ’’پاناما پیپرز ‘‘سے توجہ ہٹانا ہے‘ سبحان اللہ !
دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ متعلقہ محکمے کے افسر صاحب جس نے کچہری میں داخل ہونے ولوں کی تلاشی کا حکم دیا تھا‘ وہ خاموش بیٹھے ہیں‘ انہیں اپنی حکم عدولی پر نیئر بخاری کے خلاف ا زخود کارروائی کرنا چاہئے تھی۔ ڈر ہے کہ کہیں عنقریب نیئر بخاری کی حمایت میں عدالتوں کے بائیکاٹ اور جلسہ جلوس کا اہتمام نہ کیا جائے۔ موصوف نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے آئی جی پولیس کو حکم دیا جائے۔ جج صاحب نے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں لیکن درخواست دائر کرنے والے سے سوال نہیں کیا کہ یہ سیکورٹی آپ کو دی جائے یا اس اہلکار کو جو آپ کے شر سے محفوظ نہ رہا۔ اب سیاسی اشرافیہ (دونوں طرف کی) الٹا مظلوم کے خلاف ہی واویلا کر رہی ہے۔
ظالم تیری خدائی‘ کافر تیرا زمانہ
جلتا رہا نشیمن دیکھا کِیا زمانہ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ برہمن ہیں‘ وہ شودر یا دلت تھا جو آپ ’’بھرشٹ ‘‘(ناپاک) ہو گئے اور آپ کا بیٹا اس کی پٹائی کر کے بھی ’’پوتر ‘‘(پاک)رہا۔ ہندوستان میں برہمن‘ شودر اور دلت کے ساتھ برا سلوک کرتے‘ ان کا سایہ بھی برہمن پر پڑ جائے تو وہ ناپاک (بھرشٹ) ہو جاتا ہے چنانچہ شودر مجبور تھے کہ برہمن سامنے سے آ رہا ہو تو راستہ چھوڑ کر اتنی دور چلا جائے کہ اس کا سایہ برہمن کے جسم پر نہ پڑے۔ اگر کسی چھوٹی پگڈنڈی پر کوئی شودر سامنے آ جائے تو برہمن کو دیکھ کر شودر فوراً کھیتوں میں اتر کر دور ہٹ کے بیٹھ جاتا تاکہ برہمن تک اس کا سایہ جائے ‘نہ یہ پاک باز کو گناہ گار شودر کی شکل دیکھے‘ چنانچہ یہ نیچ قومیں اپنی بے عزتی اور عزت نفس تباہ کئے جانے پر مسلمان ہو جاتیں کیونکہ مسلمان طاقتور تھے اور حکمران بھی‘ اس لئے برہمن ان سے ڈرتے تھے۔ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود برہمن اور کھشتری کی آنکھ میں آنکھ ڈالتے چنانچہ اب وہی شودر جو مسلمان ہو گیا ہوتا ‘ اس پر نظر پڑتی تو برہمن خود بھاگ کے دو رجا کھڑا ہوتا۔ اب اس کے سائے سے بچنا برہمن کی اپنی ذمہ داری بن جاتا۔ اس طرح اگر کچہری میں ڈیوٹی کرنے والا اہلکار پولیس کی بجائے فوج کا جوان ‘ رینجرز کا سپاہی یا ایف سی کا اہلکار ہوتا تو بھی موصوف کی رگ حمیت اسی طرح پھڑکتی؟ یا چراغ سحری کی طرح بھڑک کے رہ جاتی؟
اسی راولپنڈی میں رہنے والے ان کے ’’گرائیں‘‘ نواز کھوکھر بھی کبھی ڈپٹی اسپیکر ہوتے تھے‘ انہوں نے ایک افسر کے ساتھ محض اس لئے بدتمیزی کی کہ چھوٹی سی گاڑی ان کے قافلے کے سامنے آ گئی تھی۔ اس کے بعد اس افسر کے محکمہ کے سربراہ آصف نواز نے نوٹس لیا تو بڑے بڑے طرم خان ’’پیلا پاجامہ‘‘ پہن کر باہر نکلا کرتے تھے۔ پولیس کی نوکری جو کبھی رعب اور وقار کیلئے تھی خود افسروں کی نالائقی‘ خودغرضی اور ذاتی مفادات کی نظر ہو گئی۔ محکمے کی عزت و وقار کی حفاظت سربراہ کی پہلی ذمہ داری ہے جو پولیس سربراہ پوری کرنے میں یکسر ناکام رہے۔
تازہ ترین