• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مغربی ممالک کے سفیروں سے درخواست کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹران پر اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان کو دیئے جانے والے 5.3/ارب ڈالر کے قرضے کے حجم کو7.3/ارب ڈالر تک بڑھوانے میں مدد دیں۔ پاکستان نے دسمبر 2015ء تک آئی ایم ایف کو4.13/ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں چنانچہ وزیر خزانہ کی یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے پاکستان کے قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ قرضے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے حاصل کئے جارہے ہیں۔ نومبر 2008ء میں آئی ایم ایف نے مغربی ممالک کی سفارش پر پاکستان کو 7.6/ارب ڈالر کا قرضہ دینے کی منظوری دی تھی لیکن یہ سفارش بقول برطانوی وزیر خارجہ اس شرط پر کی گئی تھی کہ پاکستان ملک کے اندر لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کو اپنا پارٹنر بنائے گا۔ اس کے 3برسوں کے اندر پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے 48/ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اس جنگ سے اکتوبر 2001ء سے جون 2013ء تک ان نقصانات کا حجم تقریباً 100/ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ آئی ایم ایف کا بورڈ ستمبر 2013ء میں 7.3/ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دے گا لیکن پاکستان کو فنڈ کی ایسی شرائط پورا کرنا ہوں گی جنہیں عوام دشمن کہا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اپنے ”گریٹ گیم“ کے مقاصد کے حصول کے لئے دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کے اپنے دیرینہ مطالبے کو پورا کرانے کے لئے ایسے حالات پیدا کررہا ہے جن سے ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھیں گی اور موجودہ حکومت کے تعاون سے وطن عزیز قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنس جائے گا۔
آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا ہے کہ حکومت اس قرضے کے پیکیج کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے بھی حاصل کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ بچانے کے لئے صوبے ان شرائط پر رسمی احتجاج کرنے کے بعد اس کی منظوری دے دیں گے، بصورت دیگر انہیں ہر قسم کی آمدنی بشمول زرعی شعبے اور جائیداد کے شعبے کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا پڑے گا جس کے لئے ممبران صوبائی اسمبلی راضی نہیں ہوں گے کیونکہ اس سے خود ان کے اور طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس نئے قرضے کی منظوری کے بعد گزشتہ 5برسوں میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لئے منظور کئے جانے والے قرضوں کا حجم 8.6/ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جبکہ نومبر 1980ء سے اکتوبر 2008ء کے 28برسوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو تقریباً 6/ارب ڈالر کے قرضے دیئے تھے۔ نائن الیون کے بعد خصوصاً افغانستان کے ضمن میں نئی حکمت عملی جو امریکہ نے2007ء میں وضع کی تھی یہ سب کچھ اسی کا اعجاز ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ مصری فوج کے سربراہ عبدالفتح اسیسی کی جانب سے اسلامی انقلاب کے حامی صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے چند روز بعددو اہم عرب ملکوں نے مصر کو 8/ارب ڈالر (ناقابل واپسی نقل امداد اور قرضوں وغیرہ کی مد میں) دینے کا اعلان کردیا۔ مصر کو آئی ایم ایف سے قرضہ دلوانے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس سے قبل امریکی سیکرٹری دفاع نے مصری فوج کے سپہ سالار سے متعدد مرتبہ ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
پاکستان پر امریکی ڈرون حملے بدستور جاری ہیں۔ یہ حملے گزشتہ تقریباً 9برسوں سے ہورہے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ایک ہی بات دہرا رہی ہے کہ ان حملوں سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے حالانکہ اس کا فائدہ امریکہ کو اور نقصان پاکستان کو ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ 10سے زائد برسوں سے انہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کے مقاصد میں خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینا اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنا شامل ہیں۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کئی برس پہلے کہا تھا کہ امریکہ ڈرون حملے کرکے پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ اب یہ بات تو عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ امریکہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ بھی دلوائے اور پاکستان کی درخواست پر ڈرون حملے بھی بند کردے۔ موجودہ حکومت کے دور میں شفافیت کا فقدان نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ وزیر خزانہ نے پچھلے چند ہفتوں میں یہ بات تواتر سے کہی ہے کہ پاکستان خود اپنی شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے رہا ہے اور یہ شرائط مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق ہیں۔ ہم گزشتہ کالموں میں تفصیل سے لکھتے رہے ہیں کہ یہ دونوں دعوے قطعی غلط ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 10جولائی 2013ء کو کہا کہ موجودہ حکومت کا رویہ بھی سابق حکمرانوں جیسا ہے۔ اس سے چند روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ ٹیکس کا سارا بوجھ صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے، کرپشن کرنے والوں سے رقم کیوں نہیں نکلوائی گئی اور حکومت کی جانب سے سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پتہ نہیں نئی حکومت کیا تبدیلی لانا چاہ رہی ہے۔ موجودہ حکومت پی آئی اے کے تقریباً 30فیصد حصص فروخت کرکے اس عظیم قومی ادارے کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کرنے کیلئے پر تول رہی ہے۔ اس ادارے کے بورڈ کی تشکیل نو بھی کی گئی ہے۔ اس میں ایک ایسے صاحب کو بھی شامل کیا گیا ہے جنہوں نے اپنا قرضہ بینک سے معاف کرایا تھا اور نواز شریف صاحب کے پہلے دور میں نج کاری کے نام پر ایک بڑا ادارہ غیرشفاف طریقے سے کوڑیوں کے مول حاصل کیا تھا۔ پی آئی اے کے ایک اور نئے ڈائریکٹر ماضی میں الزامات کی زد میں رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے سرکلرڈیٹ کی ادائیگی کی مد میں نجی بجلی گھروں کو جو رقوم دی ہیں ان میں بھی مبینہ طور پر شفافیت کا فقدان رہا ہے۔ جون 2013ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں بجٹ خسارے کا تخمینہ مجموعی ملکی پیداوارکا 7.5 فیصد تھا لیکن حکومت نے جلدبازی کرکے بغیر آڈٹ کرائے نجی بجلی گھروں کو کئی سو ارب روپے کی ادائیگی کردی اور اس مقصد کیلئے بینکوں کی ہفتے کی چھٹی بھی منسوخ کردی۔ اس طرح گزشتہ مالی سال میں بجٹ خسارے کو8.8فیصد تک بڑھا دیا تاکہ موجودہ مالی سال میں بجٹ خسارے میں بڑی کمی کا کریڈٹ لیا جاسکے حالانکہ اس مقصد کیلئے بجٹ میں 207/ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی عائد کئے گئے ہیں۔ پائیدار بہتری کیلئے معیشت میں بنیادی نوعیت کی ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن کیلئے نہ ماضی کی حکومتیں تیار تھیں اور نہ موجودہ حکومت تیار ہے کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اگر اب بھی یہ اسٹرکچرل تبدیلیاں نہ کی گئیں اور طاقتور طبقوں کے مفادات کو تحفظ دیا گیا تو 2018ء تک بھی معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آسکے گی اور معاشی دھماکے کا ہی دھماکہ ہوجائے گا۔
تازہ ترین