• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طلباء بار بار میڈیا کی آزادی اور جمہوریت کولاحق خطرات واسکی بقا سے متعلق تند تیز سوالات کے تیربرسا رہے تھے۔ ہرکوئی جاننا چاہتاتھا کہ پاکستان میں گزشتہ تقریباً آٹھ برس سے جمہوریت ہے لیکن میڈیا آزاد نہیں دکھائی دیتا؟ پھر کسی نے پوچھا پانامالیکس کا کیاہوگا؟کوئی تحقیقات ہوگی اور اگر ہوئی تو پھر کچھ ثابت بھی ہوسکے گا؟کوئی اپنی غلطی بھی مانے گا؟کسی نے کچھ غلط کیاہے تو کیا وہ اپنے کئے کی سزا پائے گا؟اور قرضوں میں ڈوبے ملک وقوم کاسرمایہ واپس آپائےگا یا نہیں۔ ایک طالب علم نے تویہ بھی پوچھ ڈالاکہ کیا 72ارب ڈالرز کے قرضوں کے برابر رقم واپس آجائیگی۔ ان گنت سوالات اور ان کے کسی حد تک سیرحاصل جوابات کا تذکرہ آگے چل کرکرونگا،پہلے ذرا جمہوری ملک، جمہوری معاشرے اور جمہوری اقدار رکھنے والوں کی بات کرلیتے ہیں: برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہاجاتاہے لیکن دورتاج برطانیہ کا تلخ اور دل دکھا دینے والا ماضی ہر وقت ہمارا پیچھا کرتا ہے، بالخصوص جب مسلمانوں کے نام نہاد ٹھیکیداروں، انگریز کی وفا داریوں کے عوض تاحد رسائی زمینوں کے قبضے لینے والے شرفاء نےہردور اور ہر علاقے میں سادہ لوح اور غریبوں کی زندگیوں کےعوض نہ صرف تخت وتاج حاصل کئےبلکہ کئی پیڑھیوں تک اپنے آقاؤں کی غلامی بھی کی ،وقت کاچمتکار ہےکہ آج اسی ناقابل شکست سلطنت کے زعماءکے سروں کا تاج ایک انتہائی غریب پاکستانی بن گیاہے۔کیا شان ہے حقیقی جمہوریت کی۔ عام علاقے کے عام اسکولوں سے پڑھنے اور تیسرے درجے کا پاکستانی نژاد برطانوی شہری تاج برطانیہ کے ایک سرخیل ارب پتی خاندان کی چشم کو نم اورسیاسی چراغ کوگل کرگیا۔۔جناب والا! ذرا غور فرمائیے یہ کوئی تیسرے درجے کے ملک کے سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں یرغمال شہری نہیں تھے جنہوں نے اپنے ہم وطن پر دیارغیرکےغریب کو ترجیح دے کر انجانے میں یا زبردستی عزت وتوقیربخش دی۔۔۔یہ کسی سازش یا دھاندلی کا بھی نتیجہ نہیں۔،
صاحب !دراصل یہ ہیں مسلسل جمہوریت اور مزید جمہوریت کے ثمرات ۔ یہ ثمرانگیز نتیجہ ہے جمہوریت پسند عوام کا حکمرانوں کی براہ راست جوابدہی کے نظام پر اعتماد کا۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا،اس ملک کو چوروں کے مال کی منڈی کی طرز پرلوٹ کھسوٹ کی آماجگاہ بنانے والوں کو اپنے جیسے کودیار غیر میں ملنے والے عزت وقار پرظرف بھری اک نظرہی ڈال لینی چاہئے۔جمہوریت جمہوریت کی گردان کرنے اورہمیشہ حساب کتاب کاوقت قریب آتا دیکھ کر جمہوری نظام کو خطرات میں ڈالنے کے انکشافات کرنیوالوں کی آنکھیں اب تو کھل جانی چاہئیں ،لیکن شاید ان سب کو خوش فہمی ہے کہ اپنے ہی وطن میں بیگانوں جیسی زندگی گزارنے والے یہ ’’عوام ‘‘ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، کیونکہ آپ جیسے بارعب اور عزت والوں کی موجودگی میں بھلا کوئی غریب اور کم تر پاکستانی الیکش لڑناتودور کی بات کسی چھوٹےعہدے پر پہنچنے کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
دنیا بھر کی طرح الیکٹرانک و سوشل میڈیا جس تیزی سے سب کچھ بے پردہ کررہاہےوہیں پاکستانی میڈیا نے بھی عوام کو کافی حد تک باشعور اور چوکنا کردیا ہے۔اب انہیں نہ صرف سب دکھائی و سنائی دے رہا بلکہ بہت کچھ سمجھ میں بھی آرہاہے لیکن
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
بس تھوڑا سا اور انتظار،کیونکہ لگتا ہے یہاں کچھ خود نہ کیاگیاتو پاناما لیکس کی طرح کوئی ایک اور لیک ان سب کو اور ان کے کرپٹ نظام کو بہا لیجائےگی،اس کا ایک منظر بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ اور ان کے مبینہ ساتھیوں کے معاشی کالے کرتوتوں کی صورت میں سامنے آچکاہے۔
قارئین!اب بات وہیں سے شروع کرتے ہیں، کالم کی ابتدا میں جہاں سے چھوڑی تھی…تنقیدی و تشنہ سوالات کا یہ سلسلہ عالمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سوشل سائنسز کی تقریب میں پروفیسر ڈاکٹرظفر کی کلاس ایم فل تھرڈ سمسٹرنے شروع کیااور موضوع تھا میڈیاکودرپیش چینلجز اور کرائسسز میں اسکاکردار۔ ہمارے پرانے سینئرکولیگ اور موجودہ چیئرمین پیمرا ابصار عالم میڈیا پراٹھنے والے کڑے سوالات پر کچھ جذباتی سے ہوگئے، بولے۔
” انہیں شرم آتی ہے کہ یہ میڈیا بھارت کی نقالی کرتاہے،امریکہ اور برطانیہ کے میڈیا کی نہیں جونہ صرف اس جدید نظام کے خالق بلکہ اپنے معیار کے ضابطہ اخلاق پر کاربند بھی ہیں لیکن پاکستانی میڈیاآزادی تو چاہتاہے لیکن ذمہ داری نہیں“۔ سلیم صافی صاحب نے تنقید بھرے سوالوں کےبڑے شستہ انداز میں جواب دئیے،بولے 47” سے 2002 ءتک میڈیا کی آزادی تو کجاآزاد یا غیرسرکاری میڈیا تھا ہی نہیں ،یہ اب بھی ارتقائی مراحل سے گزر رہاہے۔ ہرروز نت نئے تجربوں ،سانحات اور دبائو کا سامنا کر رہاہے ،نامکمل آزادی کےسبب غیرذمہ داری کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے اس کے باوجود جمہوریت کے کم سن پودے کی آبیاری کررہاہے“۔سینئر اور مایہ ناز صحافی راناجواد نے کہا۔”جمہوریت و آزاد میڈیا لازم وملزوم ہیں،پاکستان میں میڈیا کی حکمت عملی واضح نہیں کیونکہ ہر ریاستی ادارہ اور طاقتور لوگ میڈیا کو اپنی مرضی سے چلاناچاہتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت پسند تو ہیں، جمہوری قدروں واصولوں کو رائج وپروان چڑھانے والے کم ہی ہیں۔یہاں سچ بولنا بہت مہنگاسودا ہے لیکن تمام چیلنجز کے باوجود سچ کوعوام تک پہنچانے کیلئے میڈیا مقدور بھرکوششیں کررہاہےجوحقیقی جموریت کی طرف مارچ ہے“۔
بی بی سی سے وابستہ ایک سینئر صحافی نے کہاکہ دراصل میڈیا کی کریڈیبلٹی ہی اس کی اپنی بقا اور جمہورکے اعتماد کامظہر ہوتی ہے،امریکہ اور مغرب میں مقامی میڈیا عوام میں زیادہ مقبول اورقابل اعتماد ذریعہ اطلاع سمجھاجاتاہے جبکہ ہمارے ہاں قدرے الٹ ہے۔ یہاں غیرملکی میڈیا کی خبرمقامی میڈیا سے زیادہ معتبرسمجھی جاتی ہے جسکی بنیادی وجہ یہاں کے غیرشفاف نظام کے ایکٹرز کامیڈیا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دبائو یا مخصوص ایجنڈا ہے“۔
ڈاکٹرظفر جو (Media,The Politics and The Politician-A mismatched Troika of Pak)کے موضوع پر علمی لیاقت سے لبریزاورپرمغزکتابیں لکھ چکے ہیں،بولے۔”ہمارے میڈیا پربلاشبہ دبائو ہردور میں رہااوراب بھی ہے لیکن سچ ایک ہی ہےکہ میڈیا کی آزادی ہی جمہوریت ہے،لہذا جب میڈیا خود اپنے ہاتھ سیاستدانوں یا اشرافیہ کے ہاتھوں میں گروی رکھتاہے تو جمہوریت کیسی اورآزادی کیسی؟ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر پروفیسرمعصوم یاسین زئی نے کہا۔” میڈیا کی آزادی وطن کی آزادی کے مترادف ہے،بلاشبہ میڈیا کی جمہوری اداروں پر عوام کےاعتماد کی بحالی جیسی کوششیں ہی اصل جہاد ہیں‘‘۔ تقریب ختم ہوئی توکڑوے کسیلے سوال کرنیوالے نوجوان طلباءانہی صحافت کی نامور شخصیات کیساتھ بے تابی سے سیلفیاں بنوانے میں تادیرمگن رہے۔ دراصل میڈیا ان اہم ترین کرداروں کی جواب دہی اور عوام بالخصوص آنے والی نسل کے دل ودماغ میں پلنے والے سوالوں کاسامنا کرنا خوداحتسابی کی شاندار مثال ہے اور انہی رویوں میں جمہوریت و جمہوری معاشروں کی بقا و ترقی بھی پنہاں ہے…!
تازہ ترین