• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ہفتے پیشتر امریکہ نے پاکستان کو آٹھ عدد ایف 16 لڑاکا طیارے دینے کی پیشکش کی تھی، تو قرار یہ پایا تھا کہ 700ملین ڈالر مالیت کے طیاروں کیلئے پاکستان 270 ملین ڈالر نقد ادا کریگا، اور باقی 430ملین ڈالر امریکی گرانٹ کے طور پر ایڈجسٹ کر لئے جائینگے۔ پاکستان اس پیشکش سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ یکایک خط تنسیخ جاری ہو گیا۔ جس میں کہا گیا کہ طیارے تو پاکستان حاصل کر سکتاہے، مگر 700 ملین ڈالر کی پوری قیمت کی نقد ادائیگی پر، کیونکہ امریکی کانگریس 430 ملین کی گرانٹ کے حق میں نہیں۔ ظاہر ہے پاکستان جیسے وسائل گزیدہ ملک کیلئے اتنی بڑی رقم کی ادائیگی ناممکن، تو گویا یہ ڈیل بھی فی الحال ختم۔ یہی نہیں 2016-17 ءکے مالی سال کے دوران ملٹری ایڈ کی مد میں پاکستان کو ملنے والے 742ملین ڈالر کی ادائیگی بھی موخر کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے اپنے ’’تزویری اتحادی‘‘ کو امید و پیہم کی کیفیت میں یہ کہہ کر مبتلا بھی رکھا کہ وائٹ ہائوس اور کانگریس اس حوالے سے رابطے میں ہیں اور اول الذکر کی پوری کوشش ہو گی کہ پاکستان پر ہاتھ ہولا رکھا جائے۔
ایف 16جہازوں کی فروخت کے حوالے سے بلیک میلنگ کی یہ کیفیت1980 ءکی دہائی میں بھی پیدا ہوئی تھی۔ افغانستان میں روسی یلغار کی راہ روکنے میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں کے ’’انعام‘‘ کے طور پر امریکہ ایف 16 بیچنے پر آمادہ تو ہوا مگر جب مطلب نکل گیا تو پاکستان کی جوہری سرگرمیوں کو بہانہ بنا کر سودا منسوخ کر دیا ۔ تنسیخ کی شرائط بھی عجیب و غریب تھیں۔ پاکستان کی جانب سے ادا کی گئی رقم ہی ضبط نہیں ہوئی بلکہ الٹا ہینگروں کا کرایہ ادا کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ طیاروں کا کوئی اور گاہک مل گیا تو اس سے وصولی کر کے رقم پاکستان کو لوٹا دی جائیگی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے قائدانہ کردار نے الحمد للہ اس خوفناک عفریت کو نکیل ڈال دی ہے۔ جس کے خوشگوار اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اس آپریشن پر گزشتہ دو برس کے دوران پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود دو ارب ڈالر کی خطیر رقم جیب سے خرچ کی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان کی شاندار کارکردگی کا نوٹس یوں تو سبھی نے لیا ہے مگر بوجوہ ستائش کے معاملے میں بخل سے کام لیا جا رہا ہے۔
اس تمام ڈویلپمنٹ سے ہمارے فارن آفس کو کچھ زیادہ تشویش نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا کیس مضبوط ہے۔ ایف 16 طیاروں نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی کانگریس اور وائٹ ہائوس کے مابین اس قسم کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ انتظامیہ بالآخر کانگریس کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائےگی۔ یہ وش فل سوچ ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو کیونکہ بیچ منجھدار،جب کہ دہشت کے خلاف جنگ ابھی تمام نہیں ہوئی۔ ایف 16 جیسا آزمودہ فائٹر جہاز ہماری ضرورت ہے۔ مگر یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ سرکاری موقف کچھ بھی ہو، چوک ہم سے بھی ضرور ہوئی ہے اور ہم مناسب ہوم ورک نہیں کر پائے۔ خاص طور پر جب پاکستان کو جہازوں کی فروخت کے امریکی فیصلے کے ساتھ ہی نئی دہلی میں صف ماتم بچھ گئی تھی اور امریکی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے واشنگٹن کے فیصلے کے خلاف ناراضی کا اظہار کیا گیاتھا۔
مایوسی گناہ اور خوش گمانی اچھی چیز ہے۔ اسلام آباد فارن آفس اور واشنگٹن میں موجود ہمارے سفارت کار اس فلاسفی کے پوری طرح سے قائل۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر امریکہ کی خاطر پاکستان کی قربانیوں کی داستانیں مسحور کن ضرور ہیں۔ مگر شاید بوسیدہ اور بے ربط ہو چکیں۔ اور تازہ حقیقت یہ ہے کہ ایف 16 کے سلسلے کی 430 ملین ڈالر کی گرانٹ پر ہی خط تنسیخ نہیں کھینچا گیا، بیس ملین ڈالر کی ایک اور ملٹری گرانٹ بھی روک لی گئی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اسامہ بن لادن فیم ڈاکٹر آفریدی کی سزائے قید کو بہانہ بنا کر امریکی کانگریس پاکستان کے لئے امدادی رقوم پر مزید کٹ لگانے کے لئے سر جوڑے بیٹھی ہے۔ اسامہ کے قصے کوپانچ برس بیت گئے۔ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ ابھی تک کچھ پتہ نہیں۔ نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ مگر اس افسانے سے جڑے ایک بے ربط سے کردار کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اور اسے گرانٹ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ ایف 16 کی سیل کی تنسیخ کو وزیر اعظم ہندوستان نریندرمودی کے متوقع دورہ امریکہ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بھارت کا احتجاج بالآخر رنگ لے آیا۔ یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ماضی کی تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان مقتدر امریکی حلقوں میں جگہ نہیں بنا پایا۔ کانگریس میں پاکستان کے حمایتی تلاش کرنے کے لئے خوردبین کی ضرورت ہوگی۔ جب کہ پاکستان مخالف قانون سازوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے پہاڑ جیسے مسائل سے قطع نظر ڈاکٹر آفریدی کیس کو ٹاپ آف دی ایجنڈا کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ اور کم و بیش نصف درجن کانگریس مین (بشمول بریڈشرمین، میٹ سالمن، الیناراس) اسے امریکی وقار اور استحقاق کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ اور بضد ہیں کہ امریکی عوام کے ٹیکس کی رقوم ناسپاس گزار پاکستانیوں پر کیوں لٹائی جا رہی ہیں۔
ہماری سفارتی مشینری کی تمام تر امیدیں صدر اوباما سے وابستہ ہیں۔ ایسے میں ہم نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے حوالے سے ان کی سوچ بھی چنداں مختلف نہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ موصوف نے ایک میگزین انٹرویومیں پاکستان کو خوفناک حد تک جامد ’’Disasterously dysfunctional country‘‘ قرار دیا تھا۔ ایسے میں وائٹ ہائوس سے یہ توقع رکھنا کہ ایف16 کے حوالے سے کانگریس کو رام کر لیں گے عبث ہوگا۔ اس محاذ پر بھارت کا کیس کس قدر مضبوط ہے اور کانگریس اور انتظامیہ کے اندر انکی لابنگ کس درجے کی ہے؟ اس کی تفصیل پھر کسی وقت۔ فی الحال اتنا جان لیجئے کہ زیادہ دن نہیں گزرے امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے پاکستان کے سینئر فوجی حکام کیساتھ ایک میٹنگ کا آغاز ہی ان الفاظ کیساتھ کیا تھا۔
’’I must tell you that i am a friend of India‘‘
مجھےآپ کو ضرور بتا دینا چاہئے کہ میں انڈیا کا دوست ہوں۔
یاد رہے کہ یہ بلنٹ اور غیر سفارتی جملہ اس شخص کی زبان سے نکلا جس نے 2011 ءمیں جب کہ وہ ایک سینٹیر تھے، کانگریس کمیٹی میں بیان دیا تھا کہ انڈیا برسوں سے افغانستان کے راستے پاکستان کیلئے مسائل پیدا کرتا آیا ہے۔
’’India has over the years financed problem for Pakistan from areas across the border in Afghanistan‘‘
تو پھریہ کایا پلٹ کیسے؟ اسے کہتے ہیں لابنگ اور یہ ہوتی ہے سفارت کاری۔ وہی جناب سرتاج عزیز صاحب کی دھمکی کہ اگر ا مریکہ نے لڑاکا جہاز نہ دیئے تو ہم اپنی ضرورت کسی او ر جگہ سے پور ی کرلیں گے۔ تو بھئی روکا کس نے ہے؟ بسم اللہ کیجئے۔ کچھ تو کر گزریئے۔
تازہ ترین