• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جب کبھی بھی دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں کوئی اسمبلی معرض وجود میں آئی تو اس کا انجام اچھا نہ ہوسکا۔ اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی دھاندلی زدہ الیکشن ہوئے تو اتفاق سے اس وقت جمہوری دور تھا پاکستان میں پہلی مرتبہ 1951ء میں دھاندلی ہوئی۔ اس وقت تو نہ کوئی فوجی حکمران تھا اور نہ ہی فوج کی سیاست میں مداخلت تھی اس وقت ان لوگوں کا راج تھا جنہیں قائداعظم نے کھوٹے سکّے قرار دیا تھا، ان کھوٹے سکّوں نے دھاندلی کی ابتدا لاہور سے کی۔ یوں پاکستان کا دل زخمی ہوکررہ گیا۔
ان کھوٹے سکّوں کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اقتدار عزیز تھا، وہ اس اقتدار کی خواہش میں ڈرائنگ روموں سے ایسی سازشیں کرتے کہ کوئی حکمران ٹک نہ سکا۔ پاکستان کے ابتدائی سال اقتدار کی کشمکش کے باعث مذاق بن کر رہ گئے جبکہ دوسری جانب ہندوستان نہرو کی قیادت میں مضبوط ہوتا چلا گیا، چین بھی ماوٴزے تنگ اور چواین لائی کی قیادت میں ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے تھا اور ہمارے ہاں اقدار کی اندھی گلی میں سازشوں کے جال تھے۔
تو صاحبو! دھاندلی کی ابتدا سیاست دانوں نے کی، وہ آج بھی اس سے نہیں کتراتے۔70ء کے انتخابات ایک فوجی حکمران کے زیرسایہ ہوئے، دنیا نے کہا شفاف الیکشن ہوئے۔1977ء کے انتخابات جمہوری دور میں ہوئے تو دھاندلی کا شور مچ گیا۔ 1985ء کے انتخابات پھر ایک فوجی حکمران کی نگرانی میں ہوئے اگرچہ ان انتخابات میں برادری ازم کو ہوا دی گئی مگر یہ انتخابات بھی شفاف ہوئے۔ 1988ء اور 1990ء میں سیاست دان کس طرح ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ لوگوں کو یاد ہی ہوگا کیونکہ یہ ماضی بعید کی بات نہیں۔ 1990ء کے الیکشن میں پیسے لینے والے کون تھے، خفیہ اداروں کے اشاروں پر کون ناچتے تھے یہ سب کچھ سپریم کورٹ میں بے باک ہوچکا ہے۔ اب جب بیس بائیس برس بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آیا تو پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی پالیسی آڑے آگئی ورنہ حساب کتاب تو ہوسکتا تھا۔
1997ء کے الیکشن میں بھی بھرپور دھاندلی ہوئی، اس پر وائٹ پیپرز بھی شائع کئے گئے۔ اتفاق سے اس وقت بھی باگ ڈور سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی۔2002ء اور 2008ء کا الیکشن شفاف ہوا۔ ہاں اس دوران خفیہ اداروں نے بعض لوگوں کے راستے موڑنے کی کوشش کی۔ 2002ء کے الیکشن کی شفافیت کا اندازہ لگانے کے لئے بس یہی بات کافی ہے کہ میاں نواز شریف کے ناپسندیدہ سیاستدان ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنانے کے لئے قریباً دو ماہ لگ گئے پھر ایک رات پیپلزپارٹی پر شب خون مارا گیا اور پیٹریاٹ کی مدد سے حکومت قائم ہوگئی۔
2013ء کا الیکشن تمام تر کاوشوں کے باوجود دھاندلی سے نہ بچ سکا بلکہ ایک پارٹی کو اتنی سیٹیں مل گئیں جس کا اندازہ اس پارٹی کے قائدین کو بھی نہیں تھا، ان کے لئے بھی نتائج حیران کن تھے کیا الیکشن تھے کہ جو پارٹی ہار گئی اس کی قیادت بھی حیران اور جو پارٹی جیت گئی اس کی قیادت بھی حیران و ششدر۔ جیو کے الیکشن سیل میں جو لوگ تجزیئے پیش کررہے تھے۔ ایک پارٹی کو ان تجزیوں سے بھی کہیں زیادہ سیٹیں مل گئیں۔ سوائے چند ایک تجزیہ کاروں کے شاید باقیوں کو تو پاکستان کی دیہی سیاست کی الف ب کا بھی علم نہ ہو، کچھ سروے پر بڑا یقین رکھتے تھے۔ مجھے سروے پر اس وقت حیرت ہوئی جب سروے کرنے والی ایک کمپنی کے سربراہ نے ہم صحافیوں کے اندازوں کو سامنے رکھ کر نتائج مرتب کرنے شروع کردیئے۔
میں ان کی پیرانہ سالی کا خیال کر گیا ورنہ کہنے کو تو بہت کچھ تھا۔ ہمیں سارا دن دھاندلی کی اطلاعات ملتی رہیں پھر شام ہوئی تو کئی لوگ جیت رہے تھے پھر نصف شب سے پہلے ایک سہانی تقریر ہوئی اور پھر جیتنے والے ہارتے ہوئے نظر آئے اور ہارنے والے سوگواری کی کیفیت سے نکل آئے۔ اس دھاندلی کے خلاف بہت مظاہرے ہوئے بلکہ تحریک انصاف کے لوگوں نے تو کئی روز دھرنا دیا۔ اب یکم اگست کو عمران خان دھاندلی پر ایک وائٹ پیپر پیش کریں گے۔ اس پیپر سے پہلے یورپی جائزہ مشن کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے یہ رپورٹ مشن کے سربراہ مائیکل گاہلہ نے پیش کی۔ اس رپورٹ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو بالکل ردکردیا گیا ہے، واقعی ایسا ہی ہوا مگر پھر دھاندلی کہاں اور کیسے ہوئی یورپی مبصرین تو کہتے ہیں کہ نوّے فیصد دھاندلی ہوئی۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرسکا، کہیں ریٹرننگ آفیسرز، کہیں پریذائیڈنگ آفیسر شامل رہے، کہیں جعلی بیلٹ پیپرز تو کہیں جعلی شناختی کارڈز استعمال ہوئے۔
کہیں دھاندلی ہوئی، کہیں دھونس، جنگ کے یہ صفحات گواہ ہیں کہ یہ خاکسار بار بار لکھتا رہا کہ ریٹرننگ آفیسرز کے علاوہ نچلے درجے کے ملازمین نے دھاندلی میں پورا ساتھ دیا ہے۔ رہے فخرو بھائی تو انہوں نے سوائے ندامت کے کچھ نہیں کمایا۔ اب صدر زرداری کہتے ہیں کہ میں ملک کی خاطر چپ رہا ورنہ دھاندلی کی خبر تو تھی۔ بس یہ الیکشن طاہر القادری کے اقوال زریں کے مطابق ہی ہوا، انہوں نے جو کہا وہ سچ ثابت ہوا۔ دور سے آنے والوں کو بھی خبر ہوئی کہ اس الیکشن میں ووٹ کسی کو پڑا، جیت کوئی گیا اور یاد رہے کہ دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوا۔ ڈاکٹر غزالہ خاکوانی کا شعر برمحل ہے کہ
کچی دیوار پہ بارش کے نشاں ہوں جیسے
داغِ دل ایسے ہی چہرے سے نمایاں ہوں گے
تازہ ترین