• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح ایک فرد کی عزتِ نفس اور خودداری کا فیصلہ اللہ نے اس کے اپنے ہاتھ میں دیا ہے، اسی طرح قوموں کو بھی یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ ایک رزیل و رسوا قوم کے طور پر زندہ رہیں گی یا پھر عزت اور وقار کے ساتھ۔ ہماری قوم نے بہرحال دوسری قسم کے طرزِ زیست کو ترجیح دی ہے۔ ہم بڑی احتیاط سے انتظام کرتے ہیں کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے کہ اس سے عزت اور وقار(میں غیرت کا لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے پاکستان کے ایک انتہائی ”بااثر اور طاقتور“ طبقے کو بڑی چڑ ہے ، ہونی بھی چاہئے کہ قوموں کیلئے غیرت بھی کوئی قابلِ قدروصف ہے کہ اس کا ڈھنڈورا پیٹا جائے)کا گمان بھی گزر جائے۔
ایک دفعہ ایک جنرل صاحب جو ہماری ٹریننگ پر مامور تھے، پاک چین دوستی کی مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چین ہمارا اتنا گہرا دوست ہے کہ ایک دفعہ پاک فوج کو ہنگامی بنیادوں پر اسلحہ اور ایمونیشن کی ضرورت پڑ گئی، ہم سیدھے چین پہنچ گئے۔ ہم نے ان سے حسبِ ضرورت مطالبہ کر دیا، چین فوری طور پر ہماری ضرورت پوری کرنے پر تیار ہو گیا۔ اس کے بعد پیسوں کی بات آئی تو ہم نے کہا کہ پیسے تو ہمارے پاس نہیں ہیں ، اس لئے پیسوں کا انتظام بھی چین کہیں سے خود ہی کرے۔ تھوڑی پس وپیش کے بعد چین اس بات پر بھی آمادہ ہو گیا۔ اس واقعے کے کچھ سال بعد بحیثیت سفارتکار میری بیرون ملک تعیناتی کا موقع آیا تو (اپنے ٹریننگ کورس میں اول نمبر پر آنے کی وجہ سے)میر ے پاس فرانس، اٹلی، اسپین ، روس اور اس طرح کے بہت سے ممالک میں جانے کا آپشن موجود تھا لیکن میرے دل میں چین کو قریب سے دیکھنے کی بڑی تمنا تھی تاکہ میں مشاہدہ کر سکوں کہ ہمارے جیسی ایک رسوا قوم سے ایک اہم بین الاقوامی طاقت کا سفر چین نے کیسے طے کیا۔ جہاں میں نے چین کی ترقی کے بارے میں بہت سے نتائج اخذ کئے وہیں مجھے قوموں کے خصائص کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ بیجنگ میں قائم پاکستانی سفارتخانے میں دو سالہ قیام کے دوران میں نے پاک چین ”دوستی “ کی ایسی ایسی مثالیں دیکھیں کہ دل ہی ٹوٹ گیا۔ آپ کی معلومات کیلئے صرف ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک بیجنگ آئے اور وہاں پر تعینات ہمارے سفیر صاحب نے سفارت خانے کے تمام اسٹاف کے لئے رحمن ملک کا خطاب رکھ دیا۔ اب رحمن ملک اپنے کامیاب دورے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہم نے چین سے اسکینر فراہم کرنے کی درخواست کی ہے (جو اسلام آباد اور دیگر اہم شہروں میں دھماکہ خیز مواد کو پکڑنے کیلئے لگائے جانے تھے)جو چین نے مان لی ہے اور ان اسکینرز کی قیمت ہم چین سے قرضہ لے کر ادا کر رہے ہیں(پھر آج تک ان اسکینرز کا کوئی سراغ نہیں مل سکا) اور اس کے ساتھ ساتھ چین نے ہمیں چند ملین یوآن قرضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ سفارتخانے کے اسٹاف نے بھرپور تالیاں بجائیں۔ میرے جیسے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوان کیلئے، جس کے لئے خودداری اور غیرت جیسی ”بے وقعت“ اصطلاحات کی آج کے ”ماڈرن “ زمانے میں بھی بڑی وقعت ہے، ”کامیابی “ کی یہ داستان بڑی تکلیف دہ تھی، خصوصاً جب میں نے حساب کتاب کیا کہ چند ملین یوآن ، جس کا قرض ملنے پر ایک ریاست کا سفارتخانہ تالیوں سے گونج اٹھا تھا، اس کی بیجنگ جیسے مہنگے ترین شہر میں شاید چند مرلے زمین بھی نہیں خریدی جا سکتی۔
یہ تو ہے ایک انتہائی قریبی دوست ملک کے ساتھ ہماری ”دوستی “ کی روداد جو ہمارے وزیراعظم کے ”کامیاب ترین دوروں“ کی دھول میں آپ کی نظروں سے چھپی رہتی ہے، امریکہ کے ساتھ ہماری ”دشمنی “ کے بارے میں البتہ آپ کی معلومات کافی زیادہ ہوں گی۔ تھوڑا تھوڑا یاد پڑتا ہے کہ کسی امریکی نے پاکستانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ڈالروں کیلئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں(متوسط طبقے کے لوگوں کا تعلق چونکہ زیادہ تر ”غیرت بریگیڈ “ سے ہوتا ہے اس لئے وہ شاید ابھی اس حد تک نہیں گرے البتہ ہر وقت انگریزی بولنے والے، انتہائی تعلیم یافتہ اور خوشحال حکمران طبقات اور اشرافیہ کی ایک غالب اکثریت کیلئے یہ مشاہدہ کوئی زیادہ غلط نہیں ہے) ۔ اب ایک تازہ انکشاف ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں ہوا ہے کہ پاکستانی ایک ویزے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اس تازہ انکشاف کا ایک پہلو یہ کہ یہ انکشاف بھی خیر سے جنرل پاشا کی زبان سے ہونا لکھا تھا۔
ہمارے حقِ حاکمیت اور آزادی کی اس ارزانی کا ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔امریکہ کی غلامی سے نجات کا وقت قریب ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں آزادی کی کوئی بڑی توانا تحریک جنم لے رہی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی رعونت اور طاقت کے بوجھ تلے خود ہی دبتا جا رہا ہے اور جہاں اس کی رعونت کی ایک سے بڑھ کر ایک نئی مثال رقم ہو رہی ہے وہیں اس کی تنہائی اور ہزیمت کا سامان بھی اسی تیزی ہو رہا ہے۔ مجھے امریکہ کی غلامی کی زیادہ فکر نہیں، اس کی غلامی کا بوجھ ہم اپنے سرخ و سپید چہروں والے انگریزی یافتہ طبقے کے باعث بھگت چکے ہیں، مجھے زیادہ فکر مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی پوجا کرنے والے پچاریوں کی ہے۔ چین کے حالیہ کامیاب دوروں میں طے ہونے والے معاہدوں کی شرائط کو بڑی باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہیں چین کے ساتھ ہمارے معاہدے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کا عکس ثابت نہ ہوں۔
اغیار کی غلامی ہماری ہی قسمت میں کیوں ہے۔ اس کا جواب ہمیں برطانیہ ، امریکہ ، بھارت اور چین کی برائیاں کرنے سے نہیں ملے گا بلکہ ہمیں اپنے باطن کو ٹھیک کرنا ہو گا۔اپنے اندر اخلاقی گڑھوں کی گہرائیوں کو کم کرنے سے ہی ہم اک آزاد اور خود مختار قوم کے طور پر اپنا وجود قائم کر پائیں گے اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے سر راہ عرض کرتا چلوں کہ پاک چین ”دوستی “ کے بجائے ہمیں پاک بھارت دوستی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے، اس کی تفصیل پر پھر کسی کالم میں عرض کروں گا۔
تازہ ترین