• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساری دنیا میں تیزی سے پھیلی جنگلوں میں آگ اِدھر ترکی اُدھر یونان اور الجیریا تک پہنچ چکی ہے۔ ہیلی کاپٹروں اور علاقے کے لوگوں کے ہاتھوں پانی کی بالٹیاں پھینکنے سے یہ آگ قابو میں نہیں آرہی ہے۔ ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ کر مجھے وہ چڑیا یاد آرہی ہے جو ایسی ہی آگ کو بجھانے کیلئے اپنی چونچ میں بار بار پانی لا رہی تھی۔ مجھے تو سارے ملکوں میں یہی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت شمالی پول پر گلیشیئر دو ٹکڑے ہورہے ہیں۔ پاکستان میں ہر دوسرے دن کسی لینڈ سلائیڈ یا گلیشیئر کے پھسل کر نیچے آنے کے باعث راستے بند ہو جاتے ہیں۔ سیاحوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ واپس لایا جاتا ہے۔ موسمی تغیر یعنی گرمی کا بڑھنا، سارے ملکوں کیلئے، قدرت کی طرف سے چیلنج ہے کہ تم لوگ اونچی عمارتیں بڑی گاڑیاں اور ایٹمی جنگیں لڑ کر گھر گھر بارود پھیلائو گے تو قدرت بھی انتقام لے گی۔

پاکستان کے ہمسائے میں طالبان کی سینہ زوری اپنی جگہ مگر ہمارے سیاسی حلقے یہ بات بار بار کیوں کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں پھر یہی لوگ بار بار کہتے ہیں کہ پاکستان ساری عمر رہنے کیلئے بنا ہے۔ یہی کہتے تو آپ نے مشرقی پاکستان گنوایا تھا۔ اب تو باز آجائو۔ ایک اور فقرہ عام ہے، پاکستان میں اسلام خطرے میں نہیں۔ بھئی کون کہہ رہا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو، چار لڑکیاں گھروں سے اس لئے بھاگی تھیں کہ والد صاحب پڑھنے نہیں دیتے تھے۔ وہ تو سلامت رہے اس علاقے کا افسر جس نے ذمہ داری لی کہ وہ ان لڑکیوں کی تعلیم کا خرچ اٹھائے گا۔ یہ ہے نوجوانوں میں سوچ کی تبدیلی۔ ایسے افسروں کو آگے بڑھائیں بلکہ ایسی سوچ کو فروغ دیں۔

غیر ملکی جیلوں میں پاکستانی اور خاص کر اسلامی ممالک میں ہلکے پھلکے جرائم میں ہزاروں پاکستانی قید میں ہیں۔ سعودی عرب سے کچھ ایسے مظلوم قیدیوں کو اب حکومت کے زور دینے پر رہائی ملی ہے۔ سفارت خانے ایسے کام کرتے ہی نہیں۔ البتہ پاکستان میں بے آسرا قید عورتوں کو چھڑانے کیلئے عاصمہ عورتوں کی جیلوں میں جاکر، ان کی رہائی کا بندوست کرتی تھی۔ مرد قیدیوں میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ جرمانے کی رقم نہ ہونے پر سزا ختم ہونے کے باوجود، رہا نہیں ہوسکتے۔

خواتین قیدیوں کی رہائی کیلئے جب تک عاصمہ جہانگیر زندہ تھی۔ وہ رہا کروانے جایا کرتی تھی۔ اب شاید حنا جیلانی کہ وہ انسانی حقوق کی چیئرپرسن ہیں، وہ یہ کام آگے بڑھا رہی ہوں۔ ویسے زنا کے خلاف قانون پاس ہوئے 6ماہ ہوچکے ہیں۔ مگر عملدرآمد نظر نہیں آرہا۔ اس طرف بھی چیف جسٹس کی توجہ چاہوں گی کہ انہوں نے 8سالہ مسیحی بچے کو رہائی دلوائی کہ جنونیوں نے اسےتوہین رسالت کا الزام لگا کر اندر کروا دیاتھا۔ ان کا یہ کہنا کہ 8سالہ بچے کو تو مذہب کا کچھ علم ہی نہیں ہوتا۔ ایسے فیصلے کروانے کیلئے شیریں مزاری کو زیادہ متحرک ہونا پڑے گا۔دیکھ لیجئے نیویارک کے گورنر کو گیارہ خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے باعث، نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ ان خواتین نے حوصلہ کرکے، گورنر کی نازیبا حرکتوں کی نشاندہی کی تھی۔ ہمارے یہاں مرکزی حکومت میں ایک خاتون نے جنسی ہراسانی کی شکایت کی تو سارے افسروں میں ایک دوسرے کو بچانے کیلئے جدوجہد شروع ہوگئی۔ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

جب کینیا کی دو کھلاڑیوں نےگولڈ اور سلور میڈل حاصل کئے تو ایک مرد کمنٹیٹر نے کہا واہ کیا مرد انہ ہمت ہے۔ یہ ہے ابھی تک ساری دنیا کی ذہنیت۔ میں تو دو طرح سے عالمی سطح پر شکریہ ادا کرتی ہوں کہ ایک تو اگر کھلاڑیوں کو انکے یونیفارم میں دیکھتے اور عالمی اولمپکس پاکستان میں ہو رہے ہوتے تو سارے قدامت پسند سڑکوں پر ہوتے کہ یہ کیا فحاشی ہورہی ہے۔ دوسری وجۂ شکر یہ کہ ہم نے منی گروپ کے ساتھ حصہ لیا اور منہ نیچے کئے ہوئے واپس آگئے ورنہ ایک بھی چھوٹا میڈل آتا ’’ﷲ اکبر کے نعرے زمین آسمان میں گونجتے، مگر کیسے! ہمارے ملک میں جو نوجوان بھی آگے بڑھتا ہے، وہ کبھی میاں چنوں یا شمالی علاقوں سے اپنی محنت اور جنون کے بل پر سامنے آتا ہے۔ بہت سفارشوں کے بعد اس کا نام آگے بڑھتا ہے۔ پھر حکومت کریڈٹ لینے کو تیار ہو جاتی ہے۔

اولمپکس ختم ہوئے، اب اپنے ملک کے بڑے سوال پر ہم مل کر غور کریں کہ آخر امریکہ کا دورہ کرنے کے دوران، معید یوسف کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ جو بائیڈن، پاکستان کے وزیراعظم کو فون کیوں نہیں کرتے! میں نے معید یوسف کو پاکستان میں پڑھتے۔ بولتے اور امریکہ روانگی سے قبل ایک جاپانی دوست کے گھر عشائیہ میں دیکھاتھا۔ پھر ایاز امیر نے لکھا کہ ہمارا ہونہار امریکہ کے اسٹرٹیجک دفاعی سیکشن میں کام کررہا تھا۔ وہ پاکستان میں واپس امپورٹ کرلیا گیا یہ سوچ کر امریکی دفاعی راز، سب اس کے پاس ہوں گے۔ خیر وہ معصوم اپنی جان پر کھیل کر عالمی اداروں کو انٹرویوز بھی دیتا رہا۔ اور ہم یہاں ڈھونڈتے رہے کہ ہمارے وزیر دفاع اور سارے خفیہ اداروں کو نہ طالبان کے مسلسل آگے بڑھنے پر اعتبار آیا بلکہ 2006میں، ہماری اور افغان حکومت نے کہا تھا کہ طالبان پر ہم آسانی سے غلبہ پالیں گے۔ آج اشرف غنی بھی فرار ہوگیا۔

تازہ ترین