• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بہت سست الوجود شخص ہوں، یا یوں کہہ لیں کہ غیر ضروری کاموں میں چست اور ضروری کاموں میں سست واقع ہوا ہوں چنانچہ مبارک بادی اور تعزیت کے کام عموماً تاخیر سے سرانجام دیتا ہوں اس کی ایک تازہ مثال باؤ غلام حیدر کو مبارک باد کہنے کے حوالے سے ایک بار پھر سامنے آئی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنے دو مہینے ہونے کو ہیں میں روزانہ سوچتا تھا کہ آج باؤ غلام حیدر کی طرف جاتا ہوں کل جاتا ہوں مگر ہر بار کوئی نہ کوئی غیر ضروری کام آن پڑتا تھا اور یوں یہ ضروری کام رہ جاتا تھا، باقی بات میں آپ سے بعد میں کرتا ہوں۔ پہلے یہ تو بتا لوں کہ باؤ غلام حیدر ہے کون؟ تو باؤ غلام حیدر انتخابات میں کامیاب ہونے والی ایک جماعت کا ایک پرانا جیالہ ہے وہ پیدائشی نظریاتی شخص ہونے کے علاوہ اپنے قائدین سے ذاتی محبت اور قربت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ روز اول سے ان کے ساتھ ہے اور ہر بحران میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا رہا ہے، اس کے قائدین اور اس حوالے سے جماعت کے دوسرے اہم لوگ بھی دل سے اس کا احترام کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے انتخابات میں اس کی جماعت کی کامیابی پر اسے مبارک باد دینا بہت ضروری تھا کیونکہ میری اس کی اپنی دوستی بہت پرانی ہے!
سو گذشتہ روز بالآخر میں نے بہت سے غیر ضروری کاموں کو پس پشت ڈالا اور اس ضروری کام کے لیے اس کے گھر پہنچ گیا۔ وہ مجھے حسب معمول بہت گرم جوشی سے ملا۔ جب اس کے میرے نہ ملنے کے حوالے سے گلے شکوہ ختم ہوئے تو میں نے کہا ”یہ باتیں تو چلتی رہیں گی، پہلے اپنی پارٹی کی کامیابی پر میری دلی مبارکباد قبول کرو! ”یہ سن کر وہ خوشی سے اچھل پڑا اور فرط مسرت سے ایک بار پھر مجھے سینے سے چمٹاتے ہوئے بولا واقعی تم صحیح کہہ رہے ہو؟ حسب عادت مذاق تو نہیں کررہے؟ “میں اس کا یہ ردعمل دیکھ کر انتہائی پریشان ہوا، بلکہ مجھے فکر لاحق ہوگئی کہ خدانخواستہ کسی صدمے کی وجہ سے اس کے دماغ پر کوئی اثر تو نہیں پڑا، مجھے یہ فکر یوں بھی لاحق ہوئی کہ مسلسل بیرونی دوروں کی وجہ سے میری اس سے ملاقات کافی عرصے بعد ہورہی تھی، چنانچہ میں نے اسے سینے سے الگ کرتے ہوئے کہا ”آر یو آل رائٹ؟کیا تمہیں واقعی علم نہیں کہ تمہاری جماعت بھی کامیاب جماعتوں میں شامل ہے اور تمہارے وہ سب دوست اعلیٰ عہدوں کے علاوہ وزیر اور مشیر وغیرہ بھی بن گئے ہیں جن کے ساتھ تمہارے پرانے مراسم تھے، تمہارے کئی بیورو کریٹ دوست بھی اعلیٰ پوزیشنوں پر فائز ہوگئے ہیں اور تم یوں ظاہر کررہے ہو کہ جیسے تمہیں اس انقلاب کا کچھ علم نہیں!“ اس پر مجھے محسوس ہوا کہ اس بار باؤ غلام حیدر کے پریشان ہونے کی باری ہے وہ مجھے سخت اپ سیٹ دکھائی دینے لگا۔ کچھ دیر تک وہ سکتے کی سی کیفیت میں رہا اور پھر بولا الیکشن کے دن میرے حلقے میں مخالف فریق کے ایک شخص نے فائرنگ کردی، چنانچہ مجھے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا میں ایک ہفتہ پہلے واپس گھر پہنچا ہوں اور اب یہ خبر میں تم سے سن رہا ہوں میں نے پوچھا” تمہاری پارٹی کے دوستوں اور تمہارے گھر والوں نے بھی تمہیں یہ خوشخبری نہیں سنائی؟“بولا ”میں تو کوما میں چلا گیا تھا، ہفتہ پہلے ہوش میں آیا ہوں۔ مگر میرے پارٹی کے دوست اور میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس ضمن میں کچھ نہیں بتایا“ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی نشست سے اٹھا اور بک شیلف میں سے قرآن مجید ہاتھ میں تھامے میرے نزدیک آیا اور کہا ”مجھے تم پر یقین نہیں تم اس مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو ٹھیک کہہ رہے ہو!“ مجھے باؤ غلام حیدر کی یہ حرکت بہت عجیب لگی مگر میں نے اس کی یہ خواہش پوری کردی!
تب اسے یقین تو آگیا، مگر مجھے لگا اس کا چہرہ کچھ الجھ سا گیا ہے، مجھے اس کی یہ کیفیت سمجھ میں نہیں آئی، میں نے پوچھا ”کیا ہوا، اتنی بڑی خوشخبری سننے کے بعد تم الٹا اداس سے نظر آنے لگے ہو؟“ بولا ”شاید تم صحیح کہتے ہو… بات کچھ یوں ہے …“ اور پھر وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ میں نے کہا ”بولو یار بولو، کھل کر کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟“ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ سب کچھ زبان پر نہیں لانا چاہتا جو اس کے دل میں ہے … میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ”شرماؤ نہیں باؤ غلام حیدر، تم جو بھی کہنا چاہتے ہو، کہو میں تمہارا پرانا دوست ہوں!“ اس پر وہ بولا بات دراصل یہ ہے کہ جب میں کوما سے باہر آیا تو میں نے الیکشن کی بابت جاننے کے لیے اپنی جماعت کے اہم لوگوں کو فون کیا، مگر ان سب کے فون بند تھے، اگر کوئی فون کھلا بھی ملا تو اس نے اٹینڈ نہیں کیا۔ پھر میں نے اپنے ان تمام بیورو کریٹ دوستوں کو فون کیا جن سے میرا دیرینہ تعلق تھا اور وہ کسی دور میں میری جماعت کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر رہ چکے تھے مگر وہاں سے بھی کسی نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے ان تمام کارکن دوستوں کو فون کیے مگر میری ان میں سے کسی سے صحیح طرح بات نہ ہوسکی… یہ کارکن وہ تھے جنہوں نے جماعت کو جتوانے کے لئے دن رات کام کیا تھا، میں نے اپنے گھر والوں سے پوچھا مگر ان کے منہ بھی لٹکے ہوئے تھے اور وہ کچھ کہنے سے گریزاں لگتے تھے، تب میں جان گیا کہ میری جماعت انتخابات میں شکست کھا گئی ہے اور سب مایوسی اور شرمندگی کے عالم میں ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں! مگر تم مجھے بتا رہے ہو کہ تمہاری پارٹی الیکشن جیتنے والی پارٹیوں میں شامل ہے۔“
مجھے ساری بات سمجھ آگئی تھی مگر اب مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ باؤ غلام حیدر جیسے مخلص اور جانباز قسم کے کارکن کو کیسے سمجھاؤں کہ تم جن لوگوں کیلئے کام کرتے رہے تھے یہاں تک کہ اس تگ و دو میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دی اور ہسپتال میں کوما کی حالت میں پڑے رہے۔ ان سب نے کامیابی کے بعد تم سے منہ کیوں موڑ لیا تھا۔ لیکن میری یہ مجبوری تھی کہ میں اسے زمینی حقیقتوں سے آگاہ کروں چنانچہ میں نے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی تاکہ اسے ذہنی طور پر اس دھچکے کیلئے تیار کروں جو اسے میری بات سے پہنچنا تھا۔ اس کے بعد میں نے کہا ”باؤ غلام حیدر تم جیسے لوگ اقتدار کی دیگ کا ایندھن ہو، تمہاری ضرورت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک یہ دیگ تیار نہیں ہو جاتی … اس کے بعد تم راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہو۔ تمہیں اپنی جماعت کی کامیابی کا یقین اس لیے نہیں آرہا تھا تم اپنے رہنماؤں، وزیروں، مشیروں اور بیورو کریٹ دوستوں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ جن کی محبت میں تم ہسپتال پہنچے وہ تمہاری عیادت کو آئیں گے اور کوما سے نکلنے کے بعد وہ تمہیں کامیابی کی خوشخبری سناتے ہوئے تمہیں پھولوں سے لاد دیں گے مگر تم بھو ل گئے کہ تم اقتدار کی دیگ پک جانے کے بعد راکھ کا ڈھیر بن چکے ہو۔ تم نے کبھی راکھ کے ڈھیر پر پھولوں کی پتیاں دیکھی ہیں؟“
میں یہ سب کچھ کہتے اندر سے کانپ رہا تھا کہ تازہ تازہ بیماری سے اٹھے ہوئے باؤ غلام حیدر کوکہیں ان تلخ باتوں سے دل کا دورہ نہ پڑ جائے، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کے تاثرات بالکل نارمل ہیں … اس نے مجھ سے غیر جذباتی لہجے میں پوچھا ”اور میرے وہ کارکن دوست جو دن رات جماعت کی کامیابی کیلئے میرے ساتھ کام کرتے رہے تھے، انہوں نے مجھے کچھ کیوں نہیں بتایا؟“ میں نے کہا ”الیکشن کے بعد ان سب کی حیثیت بھی راکھ کے ڈھیر کی سی ہوگئی تھی، ان کی محنت سے ایم پی اے اور ایم این اے بننے والوں نے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے دوبارہ ان بستیوں کا رخ ہی نہیں کیا تھا وہ سب ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، اپنے اردگرد کے لوگوں سے بھی جو ان کے پاس کام لے کر آتے ہیں … وہ تم سے بات کر کے اپنے اور تمہارے زخم تازہ نہیں کرنا چاہتے تھے!“
باؤ غلام حیدر ایک بار پھر غیر جذباتی لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوا ”اور میرے گھر والوں نے مجھے میری جماعت کی کامیابی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟“ پیشتر اس کے کہ میں اس کے سوال کا جواب دیتا، برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا اور باؤ غلام حیدر کا بیٹا اندر داخل ہوا۔
اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ”انکل، میں آپ کی سب باتیں سن رہا تھا، ہم اپنے ابو کو کیسے یقین دلاتے کہ ان کی جماعت جیت چکی ہے کہ کامیابی سے اگلے دن میں جماعت کے کارکنوں کا ایک بہت بڑا جلوس لے کر اپنی جماعت کے ایک رہنما کے گھر پہنچا، ہم سب خوشی سے نعرے لگا رہے تھے اور بھنگڑے ڈال رہے تھے مگر وہ گھر سے باہر ہی نہیں نکلا، اس کے ملازمین نے بتایا کہ صاحب ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کیلئے گئے ہوئے ہیں، آپ لوگ کل آجائیں۔ سب کی ملاقات ہو جائے گی … مگر وہ ملاقات آج تک نہیں ہوسکی!“ پھر اس نے باؤ غلام حیدر کو مخاطب کیا اور بولا ”ابو، ہم گھر والے آپ کو یہ ذہنی دھچکا نہیں دینا چاہتے تھے کہ جماعت نے آپ کی دیرینہ خدمات کے باوجود آپ کو اسمبلی کا ٹکٹ تو کیا دینا تھا، الیکشن جیتنے کے بعد آپ کو وہ تھپکی بھی نہیں دی جو سیاسی لوگ رسمی طور پر دیا کرتے ہیں… ہم نے آج تک آپ کا ہر حکم مانا ہے، آج آپ کو ہم گھر والوں کی ایک گزارش ماننا ہوگی۔
”وہ کیا؟“ باؤ غلام حیدر نے پوچھا۔
”آپ پارٹی چھوڑ دیں“ بیٹے نے کہا۔
یہ سن کر باؤ غلام حیدر کے چہرے کا رنگ اس ساری گفتگو کے دوران پہلی دفعہ متغیر ہوا اور وہ تیز لہجے میں بولا ”مجھے اپنی پارٹی کے رویے کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا تمہاری اس بات سے ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہے … میں نے اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے جدوجہد اپنے کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں کی تھی، میں ان کا نظریاتی ساتھی ہوں … اگر ان کے کچھ لوگ بے وفا اور بے مروت نکلے ہیں کہ انہوں نے کامیابی کے بعد کارکنوں کو مبارکباد تک نہ دی اور نہ قبول کی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ردعمل میں، میں اپنے نظریات سے دستبردار ہو جاؤں … آئندہ میں تمہارے منہ سے اس طرح کی بات نہ سنوں!“
باؤ غلا م حیدر کی حیثیت اپنی جماعت میں اگرچہ راکھ کے ڈھیر جیسی ہوگئی تھی مگر اس کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ راکھ کا ڈھیر نہیں، آگ کا ایک الاؤ ہے جو ہمیشہ روشن رہے گا اور تمام جماعتوں کے مایوس کارکنوں تک اس پیغام کی روشنی تقسیم کرتا رہے گا کہ جماعت تبدیل کرنے کی بجائے جماعت کے رویوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مگر میں نے سوچا کہ کیا سب لوگ باؤ غلام حیدر جیسے ہو سکتے ہیں؟
تازہ ترین