• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا بے بس، لاچار، بے کس اور مظلوم ملک کہاں ہوگا جیسا پاکستان ہے۔ایک اکیلا سا، تنہا تنہا ، سہما ہوا، سمٹا ہوا ملک۔ ایسا ملک جس پر ہر طرف سے سازشوں کے تیر چل رہے ہیں۔ دنیا والے سارے کام دھندے چھوڑ کر اس غریب ملک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور دکھیا کے خلاف سازشوں پر سازشیں کئے جا رہے ہیں۔ ایک سی آئی ہے، امریکی جاسوس ادارہ، اُسے دنیا میں اور کوئی کام نہیں رہا۔ صبح شام پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہا ہے، اوپر سے پڑوسی ملک کا مخبری کا ادارہ جس کا نام را پڑ گیا حالانکہ راون ہونا چاہئے تھا، وہ لنکا ڈھانے کے بجائے پاکستان کو پچھاڑنے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے کہ کسی طرح یہ مظلوم ملک لکشمن ریکھا پھلانگ جائے اور پھر اس کو بن باس کا مزا چکھایا جائے۔ جس راون کی چالوں میں سیتا جیسی پاکیزہ اور عفّت مآب خاتون آگئی تھیں، اس را کے آگے پاکستان دو نفلوں کی مار ہے۔وہ بلوچستان میں پنجے گاڑ رہا ہے اور اس کے تنخواہ دار ملازم بانیٴ پاکستان کی تاریخی قیام گاہ پر ایسے نعرے لگا کر راکٹ مار رہے ہیں کہ لوگ ان کو مسلمان سمجھ بیٹھیں، سارا بہتان اسلام پر آئے اور ایک عالم اس دین سے بیزار ہو جائے۔ رہی سہی کسر ہمارے ازلی دشمن اسرائیل کی جاسوس ایجنسی موساد نے پوری کر دی ہے۔ اس نے پاکستان کے خلاف سازشوں کی ہر ممکن کارستانی شروع کر رکھی ہے اور بھارت میں ڈیرے ڈال کر اس مملکت خداداد کے ذہن میں اس طرح کی باتیں ڈال رہی ہے کہ اپنے خالق کو خدا کہنا بُری بات ہے اور اُسے اپنا یہ نام پسند نہیں۔ ذرا دیکھئے کہ سازش کرنے والوں کے ذہن کی رسائی کہاں تک ہے، وہاں تک جہاں ہمارے وہم وگمان کی بھی پہنچ نہیں۔ ایسے مکروہ عناصر ہیں کہ پاکستان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ہم اچھے بھلے چین سے جی رہے تھے کہ سوات کی ایک لڑکی کا ڈھونگ کھڑا کردیا اور اب ان کی سیاہ فام اور سفید فام لڑکیاں ملالہ کے گن گارہی ہیں تاکہ پاکستانی قوم یہ سمجھنے لگے کہ کچھ وحشت زدہ لوگ ہماری بہو بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ سچ پوچھئے تو زیادہ نہیں، ہمارے محض پانچ کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ طنز بھرا لہجہ ترک کریں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں جہاں ملالہ کو ملک کی بیٹی کہا جاتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے کلیجے میں یہ نوخیز سی لڑکی پھانس بن کر چبھ رہی ہے۔ لوگ اس کے بارے میں ایسی ایسی سازشوں کا انکشاف کر رہے ہیں کہ بڑے بڑے پیشہ ور سازشئے بھی جنہیں پڑھ کر حیران و پریشان ہوتے ہوں گے۔ سوات کی یہ ذہین بچّی دخترِ پاکستان ہو یا نہ ہو، وہ اب دنیا بھر کی چہیتی، لاڈلی اور دلاری ہو گئی ہے۔ دنیا میں جتنی ماؤں کی بیٹیوں کو خیر سے سولہواں برس لگا ہے، انہیں اپنی بیٹیوں میں ملالہ نظر آنے لگی ہے۔اب رہ گئے باپ تو جس وقت وہ اقوام متحدہ میں انگشتِ شہادت اٹھا کر ایک عالم سے خطاب کر رہی تھی، میری آنکھیں لمحہ بھر کو نم ہو گئیں۔ کہاں ہو گی ایسی بہادر، جرأت مند اور اپنے عزم پر ڈٹی ہوئی لڑکی جس پر ساری دنیا کو پیار آرہا ہو اور وہ بھی ٹوٹ کر۔یہ سارے منظر دیکھ کر تو طالبان بھی سوچتے ہوں گے کہ کاش یوں نہ ہوتا۔
میں پھر آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف۔ دنیا میں اور بھی بہت سے ملک ہیں اور ان سب کے خفیہ ادارے ہوں گے۔ کچھ ایسی تصویر پیش کی جارہی ہے جیسے وہ سارے کے سارے پاکستان کو مٹانے کی اس سازش میں منہمک ہوں گے۔وہ سر جوڑے بیٹھے ہوں گے اور ہمیں تباہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہوں گے۔
ایسے میں خیال آتا ہے کہ ہم کتنے سادہ لوح، کتنے ناسمجھ اور کیسے بھولے ہیں۔ ایک دنیا ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہے اور ہم ایسے بے بس اور بے یار ومددگار بیٹھے ہیں کہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ پتہ ہے کہ جال بچھ رہا ہے مگر ہم سارے کام چھوڑ کر پی آئی اے میں اپنے چہیتوں کو بھرتی کرا رہے ہیں اور ترقی پر ترقی دلوا رہے ہیں، اب اڑوسن پڑوسن چاہے جو کہے ہمارے چھوروں کی پانچ برس تک تو نوکری پکّی ہے۔
پھر اوپر والے پر ایمان اتنا پختہ ہے کہ وہ ایک نہ ایک روز دشمن کی توپوں میں کیڑے ڈال دے گا، سازشوں کا بھانڈاپھوٹ جائے گا اور گیس چوری کرنے والوں کی طرح ملالہ بھی نشانِ عبرت بن جائے گی۔ اسی یقین کے باعث ممکن تھا کہ ہم چین سے سوتے، وہ تو خدا بھلا کرے لوڈشیڈنگ کا کہ راتیں تڑپ تڑپ کر کاٹنے کا سارا الزام اس پر دھرنے میں بڑی سہولت ہو گئی ہے، ہو نہ ہو یہ بھی کسی سازش کا حصہ ہے۔
تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہوں گے۔ ایک زمانے میں اگر کسی کو سزائے موت دی جاتی تھی تو اس کو کھانے میں ملا کر زہر دیا جاتا تھا۔ چونکہ اُس وقت تک انسانی حقوق ایجاد نہیں ہوئے تھے اور ہماری بچّیوں کی تقریریں لکھنے والے پیدا نہیں ہوئے تھے جو انسانی حقوق کا منشور لکھتے، سزا پانے والوں کو اتنی رعایت دے دیتے تھے کہ یہ زہر آہستہ آہستہ اثر کرتا تھا۔ تہ خانوں میں پڑے ہوئے بے چارے مجرم جانتے تھے کہ کھانے میں زہر شامل ہے مگر خاموشی سے کھا لیتے تھے۔ جانتے تھے کہ انجام کیا ہوگا مگر کچھ کر بھی تو نہیں سکتے تھے۔ یہ بڑی ہی بھیانک سزا تھی۔ مجرم جانتا تھا کہ اس کی جان لی جارہی ہے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ ایک کام کر سکتا تھا۔ خواب دیکھ سکتا تھا۔ سوتے میں تقریریں کرسکتا تھا کہ خواتین و حضرات، رہائی مل گئی تو یہ کروں گا، بری ہو گیا تو وہ کروں گا اور بجلی کا شارٹ فال اپنے قدموں تلے روند ڈالوں گا۔
ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہر وقت ایک ہی بات کی گردان ہو رہی ہے۔ ہر لمحہ ایک ہی رٹ لگی ہے کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ کیسی بے بسی ہے کہ جانتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔اپنے خواب بھولتے جارہے ہیں، اپنی تقریریں ذہن سے محو ہوئی جاتی ہیں، وہ حبیب جالب کے شعر بھی یاد داشت کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ سب نظر آرہا ہے، سب کچھ معلوم ہے، کچھ نگاہوں سے چھپا ہوا نہیں، کوئی بات ایسی نہیں جو علم میں نہ ہو، لیکن دل کہیں اور ہے، دھیان کہیں اور۔ ایک چیز ہوا کرتی تھی جسے اچھے زمانوں میں ترجیحات کہا کرتے تھے۔ اب تو ٹیلی وژن پر پٹّی چلاتے ہیں تو یہی لفظ چھوٹی ہ سے لکھنے لگے ہیں۔ لفظ بھی بھول رہے ہیں اور مفہوم بھی۔ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کو کبھی کہتے ہیں کہ ان کا یہ مطلب نہ تھا اور کبھی کہتے ہیں کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر کہی جا رہی ہیں اور جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو کہتے ہیں کہ وہ تو مذاق کر رہے تھے۔ ان سے کون سمجھے۔ خدا؟ یا الله۔
تازہ ترین