• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ دوپہر میرے حواس پر بجلی بن کر گری جب ایک ٹریبونل نے بنگلہ دیش کے سکالر  بین الاقوامی شہرت کے سیاسی قائد  جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کو ڈھاکے میں نوے سال کی عمر میں نوے سال کی سزا سنائی۔ جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے اِس ٹریبونل پر خود بنگلہ دیش اور عالمی دنیا میں شدید تنقید ہو رہی ہے جسے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے 2010ء میں قائم کیا تھا۔ اُنہیں چالیس برس بعد خیال آیا کہ وہ بنگالی جو 1971ء میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے  اُن پر مقدمہ چلایا جائے۔ یہ خیال مضحکہ خیز بھی ہے اور سیاسی انتقام کی چغلی بھی کھاتا ہے۔ ایک دنیا کہہ رہی ہے کہ ٹریبونل کا قیام بین الاقوامی انصاف اور اُس کی دی جانے والی سزائیں انسانی تصورات کے منافی ہیں۔ پروفیسر صاحب کی سزا کا فیصلہ سنتے ہی پورے بنگلہ دیش میں عوام اپنے روحانی پیشوا کی حمایت میں دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یہ متنازع ٹریبونل اِس سے پہلے جماعت اسلامی اور بی این پی کے متعدد راہنماوٴں کو سزائیں سنا چکا ہے۔ اُن کا سادہ لفظوں میں اصل جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کی خاطر طویل سیاسی جدوجہد کرتے اور بھارت سے تربیت یافتہ مکتی باہنی سے وطن کے جانثاروں کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔ گویا اُنہیں پاکستان سے گہری وابستگی رکھنے اور بھارت کی غلامی سے انکار کر دینے کے ”جرم“ پر عدل و انصاف کے ہر معروف تصور کے منافی سزا دی گئی ہے۔
گزشتہ بیسویں صدی میں دو حیرت انگیز واقعات نے بہت گہرا نقش ثبت کیا۔ ایک سیاسی معجزہ تھا اوردوسرا ناقابلِ یقین حادثہ۔ معجزہ یہ کہ لیلة القدر کی مبارک اور منور ساعتوں میں پاکستان تخلیق ہوا جو عالمِ اسلام کی اُمیدوں اور آرزووٴں کا مرکزبنا۔ روح گداز حادثہ یہ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جس کا مقصد وجوہ ہی نیشن اسٹیٹ کوبیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنا تھا  وہ بھارتی فوجوں کو مشرقی پاکستان میں داخل ہونے اور اُس پر قبضہ کرنے سے روکنے میں بری طرح ناکام رہی۔ یوں عالمی نظام کے اندر شگاف پڑ جانے سے نیشن اسٹیٹ کی سا لمیت کا حصار ٹوٹ گیا۔ دراصل اندرا گاندھی اِس دو قومی نظریے کو دفن کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتی آئی تھیں جس کی اساس پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔ آخر کار اُنہیں مشرقی پاکستان میں نقب لگانے اور حالات سے غیر مطمئن بنگالی نوجوانوں کو گوریلا تربیت دینے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ وہ مغربی ممالک میں جا کر اشکبار آنکھوں سے پاکستانی فوج کے مظالم کے دل دہلا دینے والے قصے بیان کرتی رہیں۔ ہر جگہ یہ کہانی سنائی گئی کہ فوج نے بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے پروفیسر  دانش ور اور اسکالر نہایت بے دردی سے قتل کر ڈالے ہیں۔ تب بھارتی پروپیگنڈے کی چکاچوند میں حقائق چھپے رہے۔ وقت کی گرد بیٹھ جانے کے بعد اب خود بنگالی محققین اُنہیں منظرِ عام پر لا رہے ہیں جو اِس امر کی تردید کر رہے ہیں کہ دانش وروں کے اجتماعی قتل کا سرے سے کوئی واقعہ پیش آیا نہ عورتوں کی آبروریزی کے افسانے کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔
اِس تاریخی تناظر میں پاکستان کے خلاف بھارت روس گٹھ جوڑ چلا آ رہا تھا اور اِن دونوں ممالک نے ”معاہدہ امن و دوستی“ پر اگست 1971ء میں دستخط کر دیے تھے۔ سوویت یونین پاکستان سے یوٹو (U2) کا انتقام لینا چاہتا تھا۔ دراصل جنرل ایوب خاں نے بیڈابیئر کا ہوائی اڈہ امریکی کنٹرول میں دے دیا تھا جہاں سے روس کی جاسوسی کرنے کے لیے امریکی طیارے اُڑتے تھے۔ ایک بار یوٹو طیارہ روس کی فضا میں داخل ہوا  توگرا لیا گیا جس نے عالمِ سیاست میں زبردست ارتعاش پیدا کر دیا اوربرزنیف نے اعلان کیا کہ ہم نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا ہے۔ اِس کا یہ مطلب تھا کہ موقع ملنے پر پاکستان کو مزہ چکھایا جائے گا۔ اُسے مشرقی پاکستان کے ہیجانی حالات سے وہ موقع میسر آ گیا اور اُس نے بھارت کو مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے اسٹرٹیجک سپورٹ فراہم کی۔ یہ دونوں ملک اِس تاریخ ساز پیش رفت پر بھی سخت پیچ وتاب کھا رہے تھے کہ پاکستان نے امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر کو خفیہ طریقے سے چین جانے کا راستہ فراہم کیا جس نے علاقائی صورتِ حال یکسر بدل ڈالی تھی۔
اِن اہم تغیرات کے نتیجے میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز تر کر دیں اور مکتی باہنی اہم تنصیبات اور سیاسی شخصیتوں پر پے در پے گوریلے حملے کرنے لگی۔ اندرا گاندھی اپنے منصوبے کی کامیابی کے بارے میں اِس قدر پُرامید تھیں کہ اُنہوں نے مئی 1971ء ہی میں مشرقی پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کا لفظ استعمال کیا۔ درحقیقت بھارت مشرقی پاکستان کی سیاست میں بہت پہلے سے دخیل چلا آ رہا تھا اور وہ اُن بنگالی عناصر کی پشت پناہی کر رہا تھا جو بنگلہ زبان اور بنگلہ کلچر کی بنیاد پر بنگلہ قومیت کا پرچار کر رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن علامہ اقبال کے بجائے ٹیگور کو اپنا قومی ہیرو سمجھتے اور ایک منصوبے کے تحت مشرقی پاکستان میں پنجاب کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاتے چلے آ رہے تھے  چنانچہ سیاسی اور ذہنی طور پر مشرقی پاکستان اپنے مرکز سے دور ہوتا گیا۔ عوامی لیگ کا مشن دینی اور جمہوری قوتوں کو مشرقی پاکستان کی سیاست سے اپنے نوجوان رضاکاروں کی مدد سے بے دخل کر دینا تھا۔ اِس کا پہلا خونخوار مظاہرہ جنوری 1970ء میں اُس وقت ہوا جب جماعتِ اسلامی نے پلٹن میدان میں انتخابی جلسے کا اعلان کیا جس کی کوریج کے لیے مغربی پاکستان سے چند صحافی ڈھاکے پہنچے۔ جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی عوامی لیگ کے لاٹھی بردار رضاکار اُس پر ٹوٹ پڑے اور جماعت اسلامی کے کارکن خون میں نہا گئے۔ پورے شہر میں خوف کی چادر تن چکی تھی اور مولانا مودودی کو جانثاروں کے حصار میں ایک محفوظ مقام پر پہنچانا پڑا۔ انتخابات کے آغاز ہی میں یہ پیغام دیا گیا کہ عوامی لیگ کے سوا کسی اور جماعت کوعوام تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مشرقی پاکستان میں نازیوں کے ہتھکنڈوں کے خلاف جماعت اسلامی ایک آہنی دیوار ثابت ہوئی اور پروفیسر غلام اعظم بڑی پامردی اور اعتدال پسندی سے جمہوری قوتوں کی قیادت کرتے رہے۔ یقینا فرشتے اُن کی پیشانی کو چوم رہے ہوں گے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد جاں جوکھوں میں ڈال کر نبھایا اور اسلامی شناخت کا پرچم بلند کیے رکھا۔ اِس تاریخی پس منظر میں آج کی پاکستانی قیادت پر لازم آتا ہے کہ وہ اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس بلانے کا اہتمام کرے جس میں بنگلہ دیش کی بے رحم حکومت سے تمام سزاوٴں کے خاتمے اور ٹریبونل کو تحلیل کرنے کا متفقہ مطالبہ کیا جائے اور سرگرم سفارت کاری کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔اِسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کو اپنا فرض یاد دلانا چاہیے اور او آئی سی کی رکن ریاستیں عالمی عدالتِ انصاف کی طرف بھی رجوع کر سکتی ہیں۔ وہ عظیم بنگالی جو بھارت میں تربیت یافتہ گوریلوں سے ایمانی قوت کے ساتھ نبردآزمائی میں سخت آزمائش کے وقت پاکستان کا دم بھرتے رہے  وہ ہماری تاریخ کے ناقابلِ فراموش ہیرو ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مولوی فرید احمد کو جب مکتی باہنی والے ذبح کر رہے تھے  تو وہ ہر زخم کھانے پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ پاکستان کے دانش وروں  قلم کاروں  انسانی حقوق کے علمبرداروں اور دینی حِس رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے خوں سے ایک محضر نامہ تیار کر کے اقوامِ متحدہ کے علاوہ مسلمان سربراہوں اور عالمی تنظیموں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایک پُرعزم رائے عامہ تیار کرنا ہو گی۔ اِسی پُرامن جدوجہد کے ذریعے مضحکہ خیز سزائیں ختم کرائی جا سکیں گی اور ظلم کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ یہ محض ایک یا دو جماعتوں کا قصہ نہیں بلکہ وطن سے محبت کرنے والے عشاق کے قافلہٴ سخت جاں کا انسانیت کے حوالے سے غیر معمولی عالمی اہمیت کا معاملہ ہے۔
تازہ ترین