• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کبھی حکومت بدلنے والی ہوتی ہے۔ ان اہم دفتروں میں ضرور آگ لگتی ہے، جہاں وہ فائلیں ہوتی ہیں جو پکڑ میں آسکتی ہیں اور جن میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آسکتے ہیں، ان دفتروں میں آگ ضرور لگ جاتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ شارٹ سرکٹ ہوگیا اور آگ لگ گئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ حکومت کے آتے وقت قائد ملت سیکریٹریٹ میں ایسی آگ لگی تھی کہ کئی دن تک بجھائی نہ جاسکی تھی۔ بیسمنٹ میں پانی کھڑا ہوگیا تھا پھر اس کے بعد، کبھی پرانے مسودات کی تلاش ہوئی۔ فوراً کہہ دیا گیا کہ وہ فائل تو جل گئی، وہ ریکارڈ تو جل گیا۔ فہمیدہ ریاض نے اردو لغت بورڈ کا پرانا حساب مانگا، کہا وہ تو جل گیا۔ کچھ اسی طرح کا نقشہ ایل ڈی اے پلازہ لاہور میں آگ لگنے کا واقعہ ہے۔ جب تک یہ یقین نہیں ہوگیا کہ تمام گزشتہ ریکارڈ اور فائلیں خاکستر ہوگئیں کئی دن تک آگ بجھائی ہی نہ جاسکی۔کسی دن ممکن ہے نیب کے دفتر میں بھی آگ لگ جائے اور بہت ممکن ہے کہ سول سیکریٹریٹ میں بھی ضرورتاً آگ لگی نظر آجائے۔ کر اچی کے سرکاری دفتروں میں بھی ایسے واقعات ضرورتاً ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں جب حفیظ جالندھری بھی سرکاری ملازمت میں تھے۔ ان سے بارہا کئی فائلوں کا تقاضا کیا گیا۔ بقول احمد بشیر، جب تقاضا حد سے بڑھا تو حفیظ صاحب نے آتشدان میں جلتی لکڑیوں کی نذر ان فائلوں کو کیا اور جواب ظاہر تھا کہ نہیں مل رہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں مع میرے، بہت سے افسروں کی فائلیں اسی طرح جلادی گئی تھیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت جب ختم کی ضیاء الحق نے تو حکم ملا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں تیار شدہ تمام مسودات، تقاریر اور تصاویر کو ٹرک میں بھر کر پیکجز کی بھٹی میں جلانے کے لئے بھیج دیا جائے۔ ضیاء الحق نے جس دن تختہ الٹا تھا اسی دن گل جی کی بنائی ہوئی پورٹریٹ کی وہ کتاب آئی تھی جس میں ساری تصویریں بھٹو صاحب نے خود پسند کی تھیں۔ حکم یہ بھی ملا کہ وہ سب کی سب ٹرک میں بھر کر پلپ ہونے کے لئے پیکیجز کی بھٹی کے لئے روانہ کردی جائیں۔ دس کتابیں اردو بازار کی ایک دکان میں موجود تھیں۔ مجھے حکم ملا کہ وہ بھی فوراً اٹھا لی جائیں۔ اس کی ایک کاپی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے مگر تاریخی مسودات کو بھسم کرنے کا یہ عمل وزارت اطلاعات میں مسلسل جاری ہے آج بھی یہ ہو رہا ہوگا۔ یہ روایت اسی طرح چلتی رہے گی۔ حکومت نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی پر مجلہ اور بہت ضخیم کتاب شائع کی تھی۔ وہ بھی اب آتش زدہ ہوچکی ہوگی۔پرانے زمانے کی روایت رہی ہے کہ شاعروں کی کتابیں، شہر کے چوک میں رکھ کر ان کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ ابھی پاکستان میں وہ زمانہ تو نہیں آیا۔ البتہ وہ سب کتابیں جو وزیروں، کبیروں کے نام سے گھوسٹ رائٹرز سے لکھوائی جاتی رہی ہیں وہ سب فٹ پاتھ پہ نظر آتی ہیں۔ کم قیمت ہونے کے باوجود، لوگ ان کتابوں کو پھر بھی نہیں خریدتے ہیں۔ یاد آیا کہ ہلاکو نے ساری کتابوں کو جلا کر دریا میں پھنک دیا تھا۔ سنا ہے دریائے دجلہ کے پانی کا رنگ کالا ہوگیا تھا۔ اسی طرح جب پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے درمیان لڑائی تھی تو یہ لوگ ایک دوسرے کی کتابیں نکال کر جلا دیا کرتے تھے۔ کتابوں کے جلانے کا بہانہ پاکستان میں بہت عام ہے۔ڈیپارٹمنٹ فلمز اینڈ پبلیکیشنز ہے ہی اس مقصد کیلئے۔ چڑھتے سورج کے بارے میں فلمیں بناؤ، وزیر اعظم کی تقریریں چھاپوں اور جب وہ سورج غروب ہو جائے تو سارے مسودات غتر بود کر دو۔ کوئی پوچھے کہ اس طرح کے محکموں کی اب کوئی ضرورت رہ گئی ہے جبکہ فیس بک اور اسکائیپ بچے بچے کو آتا ہے۔ انہی خطوط پر اے پی پی بھی کام کرتی ہے۔ پرائیویٹ میڈیا، منٹوں میں جو کام کر چھوڑتے ہیں سرکاری ادارے اس توقع میں عمر گزار دیتے ہیں کہ ابھی منظوری آئی کہ ابھی آئی۔
ابھی میں نے سینے کے اندر لگی ہوئی آگ کا تو تذکرہ ہی نہیں کیا۔ جبکہ امریکیوں نے کہا کہ ایک پاکستانی تو ویزے کے ہاتھوں بآسانی بک جاتا ہے اور وہ آگ جو لیاری کے لوگوں کا نقل مکانی کرنے کا نوحہ کہ وہ مسلسل قتل و غارت گری کے ہاتھوں بے بس ہو کر اپنے گھر چھوڑ کر دادو اور بدین کی سمت جا رہے ہیں۔ مجھے1947ء کی نقل مکانی کا منظر یاد تو آ رہا ہے مگر یہ منظر اس جیسا نہیں لگ رہا کہ اس وقت تو لوگ انتہائی اذیت ناک صورت کے باوجود، خوشی خوشی اپنے نئے ملک کی سمت آ رہے تھے یہ تو وہ وقت ہے کہ حکومت سندھ عوام کی لاچاری سے بے خبر، اپنے ممبروں سے حلف لے رہی ہے۔ ان کو وزیر بنا رہی ہے اور اس لا مکانی پر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یا خدا! پہلے روزے کو یہ کیسا سانحہ ہوگیا ہے۔ایک شرمندگی کی آگ بھی ہم سب کے دلوں کو بھسم کر رہی ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے حوالے سے بجائے شرمندہ ہونے اور ان نابکار افسروں کو نکال دینے کے، بات کو توڑ مروڑ کے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر یہ رپورٹ باہر کیسے آئی اور الجزیرہ کے ہاتھوں میں کیسے پہنچی اس کے بارے میں کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے مگر افسروں کو نکالا کیوں جائے۔ یہ لوگ ہماری تمہاری انڈین ہائی کمیشن ویزے کے لئے جانے پہ روک ٹوک کے لئے ہیں۔ جو شخص دس سال تک ہماری سرزمین پر رہا اور جس کے بارے میں مشرف نے کہا کہ وہ گردوں کا مریض تھا، کہیں مرکھپ گیا ہوگا۔ وہ گھر میں چار چار گیس کے کنکشن لگا کر چار چار بیویوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہا تھا۔ امریکیوں کی اس بات پر بھی دل میں آگ لگی ہوئی ہے کہ اگر ہم پاکستان کو بتا کر ایکشن کرتے تو خبر باہر نکل جاتی اور یہ ایکشن کبھی بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ہم کس پہ اعتماد کریں۔ امریکیوں نے تو ہمارے سب اداروں اور عوام کا کردار مخدوش کردیا ہے۔ ویسے ہماری خوش فہمی ہے کہ ہمارا کوئی کردار ہے۔ ہم جب حکومت میں نہیں ہوتے تو نعرے لگاتے ہیں اور حکومت میں ہوں تو ہمیں سمجھاتے ہیں ”شور مت کرو“۔
تازہ ترین