• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا20 برس بعد افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ چُکا‘ اس کے فوجیوں نے دہائیوں بعد عراق کو بھی خدا حافظ کہہ دیا۔ شام میں بشار الاسد سب کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر صدر ’’منتخب‘‘ ہو گئے۔ فلسطین اور یمن میں بھی جیت کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ ہر ایک اپنی فتح کے دعوے کرتا پِھرتا ہے‘ جس کے لیے اُس کے پاس بہتیرے دلائل ہیں۔ چلیے جی … مان لیا کہ سب ہی جیت گئے‘ فتح مبارک ہو‘ مگر کچھ خبر بھی ہے کہ فتح کے یہ جھنڈے کتنے کم سِن‘ معصوم و بے گناہ بچّوں کے تڑپتے لاشوں پر گاڑے گئے ہیں؟ آئیے، دیکھتے ہیں، دو دہائیوں سے جاری اِن معرکوں میں بچّوں پر کیا گزری؟

جانیں اِتنی سَستی تو نہ تھیں

’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے مطابق، دنیا کے426 ملین بچّے’’ کنفلیکٹ زون‘‘ میں رہتے ہیں اور افغانستان بچّوں کے لحاظ سے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔اِس تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے 10 برسوں میں مختلف عالمی تنازعات میں فضائی حملوں‘ فائرنگ اور بم دھماکوں میں 93 ہزار 236 بچّے جاں بحق یا زخمی ہوئے‘ یعنی یومیہ 25بچّے۔بچّوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے‘ یونیسیف نے10 اگست 2021ء کو ایک رپورٹ جاری کی‘ جس میں بتایا گیا کہ ’’افغانستان میں طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان تین روز کی لڑائی میں 27 بچّے جاں بحق‘ جب کہ 36 زخمی ہوئے۔‘‘ بات صرف اِن تین دنوں تک محدود نہیں‘ ہمیں کچھ پیچھے کا سفر کرنا پڑے گا۔

امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے جواب میں 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر لشکر کشی کی۔ ابتدا فضائی کارروائی سے ہوئی اور پھر اس نے زمینی فوج بھی افغان سرزمین پر اُتار دی۔ اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں طالبان حکومت ختم ہوئی‘ تو جنگ جُو پہاڑوں پر چلے گئے اور پھر ایک طویل گوریلا جنگ شروع ہوگئی‘ جس کے دَوران دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جاتے رہے۔ رواں برس امریکا نے ’’اہداف کے حصول‘‘ کے بعد افغانستان سے انخلا شروع کیا‘ تو طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان لڑائی چِھڑ گئی‘ مگر طالبان چند ہی روز میں کابل کے صدراتی محل میں جا بیٹھے۔

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، افغانستان کی 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی میں 46 فی صد کی عُمر 15 سال سے کم ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 20 برس جاری رہنے والی اِس جنگ میں بچّے کس قدر متاثر ہوئے ہوں گے؟ برائون یونی ورسٹی، امریکا کے ’’واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افئیرز‘‘ کی جانب سے اپریل 2021ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، اِس 20 سالہ افغان جنگ میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 71 ہزار افراد مارے گئے‘ جن میں47 ہزار عام لوگ تھے۔ 

مرنے والوں میں7 ہزار 438 امریکی، دیگر غیر مُلکی فوجی اور اُن کے معاونین‘ 66 ہزار افغان سیکوریٹی اہل کار‘ 51 ہزار 191 طالبان‘ 72 صحافی اور 444 انسانی حقوق کے کارکنان شامل ہیں۔ THE UNITED NATIONS ASSISTANCE MISSION IN AFGHANISTAN( UNAMA )نے 2009ء سے افغان جنگ میں متاثر ہونے والے عام افراد کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا۔ اُس کے دسمبر 2020ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق، ان10 برسوں میں26 ہزار25 بچّے جاں بحق یا زخمی ہوئے۔ 2009ء سے پہلے کے آٹھ، نو برسوں میں کتنے افغانی بچّے جان سے گئے‘ اِس بارے میں واضح اعداد و شمار دست یاب نہیں ۔

واضح رہے، 1979ء سے 1989ء تک روس کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ میں مِڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 18 لاکھ افراد ہلاک ہوئے‘ جن میں 3 لاکھ بچّے شامل تھے۔ نیز، زندگی بھر کے لیے معذور ہونے والے 15 لاکھ افراد میں بچّوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ حالیہ افغان جنگ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے بچّوں کے حتمی اور تصدیق شدہ اعداد و شمار ممکن نہیں کہ متحارب گروہوں نے باقاعدہ طور پر کوئی ڈیٹا جاری نہیں کیا۔ امریکی ایئر فورس فضائی آپریشن سے متعلق ماہانہ رپورٹ جاری کیا کرتی تھی‘ مگر وہ سلسلہ بھی عرصہ پہلے بند کر دیا گیا۔ 

اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے‘ اپنے طور پر میڈیا رپورٹس‘ مقامی افراد سے ملاقاتوں اور این جی اوز کی مدد سے اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں‘ جن پر نظرِ ثانی کی ضرورت رہتی ہے۔ البتہ، عالمی اداروں کی رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ بیش تر بچّے عام بستیوں اور عوامی تقاریب پر فضائی حملوں کی زد میں آکر مارے گئے‘ جن پر بعد ازاں نشانہ چُوکنے کی غیر ارادی غلطی قرار دے کر معذرت بھی کی گئی۔ اِس نوعیت کا ایک واقعہ 3 اپریل 2018ء کو قندوز میں پیش آیا‘ جہاں امریکی طیاروں نے ایک دینی مدرسے میں حفّاظ بچّوں کی دستار بندی کی تقریب پر بم گرائے۔ 

اس کارروائی میں 150 سے زاید افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے، جن میں بیش تر بچّے تھے۔ اِس سے قبل، اپریل 2011ء میں کنڑ میں اتحادی فوج کے آپریشن کے دَوران 50 خواتین اور بچّوں سمیت65 عام شہری جاں بحق ہوئے۔ افغان حکومت کے مطابق، ان میں 9 ایسے بچّے بھی شامل تھے، جو پہاڑوں پر لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے۔ اس واقعے پر غیر مُلکی افواج کے کمانڈر، جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے معذرت کی۔ 18 اگست 2019ء کو کابل میں شادی کی ایک تقریب میں ہونے والے بم دھماکے میں بچّوں سمیت 63 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

داعش نے اس حملے کی ذمّے داری قبول کی۔ اسی طرح8 مئی 2021ء کو کابل کے ایک سکینڈری اسکول کے دروازے پر اُس وقت بم دھماکا کیا گیا، جب طالبات باہر آرہی تھیں۔ اس حملے میں 60 کے قریب لڑکیاں جاں بحق ہوئیں۔19 جنوری 2011ء کو مشرقی صوبے پکتیکا میں سڑک پر نصب بم پھٹنے سے گاڑی میں سوار 13 بچّے اور 6 افغان خواتین جاں بحق ہوئے۔ اس طرح کے واقعات کی بنیاد پر عالمی اداروں نے اندازہ لگایا ہے کہ 20 سالہ افغان جنگ کے دَوران ہر روز 5 بچّے ہلاک یا زخمی ہوئے۔

10برسوں سے جاری شامی خانہ جنگی نے بھی بچّوں کو بُری طرح متاثر کیا۔ 10 مارچ 2021ء کو جاری کردہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 سالہ شامی خانہ جنگی میں 12 ہزار سے زاید بچّے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اِس ضمن میں اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صرف اُن بچّوں کی تعداد ہے‘ جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اداروں نے کی‘ جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔پرو اپوزیشن تنظیم’’سیرین آبزر ویٹری‘‘ کا کہنا ہے کہ اِس خانہ جنگی میں13 ہزار خواتین اور 22 ہزار بچّے جاں بحق ہوچُکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شامی خانہ جنگی میں 2 لاکھ 7 ہزار افراد جان کی بازی ہار چُکے ہیں، جن میں 25 ہزار بچّے بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح رائٹس واچ ڈاگ، لندن نے بھی جاں بحق ہونے والے بچّوں کی تعداد24 ہزار بتائی ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے اپنی ایک سروے رپورٹ میں لکھا ہے کہ’’ شام کے ہر دوسرے نوجوان کا کہنا ہے کہ اس کا قریبی رشتے دار یا دوست اِس جنگ میں مارا گیا‘ جب کہ ہر چھٹا نوجوان کہتا ہے کہ اِس جنگ میں اُس کے والدین میں سے کوئی ایک ہلاک یا زخمی ہوا۔‘‘ بعض اداروں کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے10 برسوں میں ہر8 گھنٹے میں ایک بچّہ جاں بحق یا زخمی ہوا۔

یہ 1950ء کی بات ہے، جب اسرائیلی فوجیوں نے 8‘ 9 اور 12 سال کے تین فلسطینی بچّوں کو گولی مار کر قتل کر دیا‘ جس کے بعد سے خطّے میں بچّوں کی ہلاکتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ رواں برس مئی میں غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 73 بچّے جاں بحق ہوئے‘ جب کہ جوابی حملے میں 2 اسرائیلی بچّے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ واضح رہے، غزہ کی 40 فی صد آبادی 14 برس سے کم عُمر بچّوں پر مشتمل ہے۔ 

اس بہیمانہ کارروائی پر اسرائیل کے معروف اخبار ’’ہیرٹز‘‘ نے نہ صرف شہید فلسطینی بچّوں کی تصاویر پہلے صفحے پر چھاپیں بلکہ اُن کے واقعات بھی لکھے۔ اِسی طرح نیویارک ٹائمز نے صفحۂ اوّل پر ان ننّھے شہداء کی تصاویر ’’یہ صرف بچّے تھے‘‘ کے عنوان سے لگائیں۔’’ سیو دی چلڈرن‘‘ نے عالمی ضمیر کو یوں جھنجھوڑا،’’عالمی برادری کے کسی اقدام سے قبل مزید کتنے خاندانوں کو اپنے پیاروں سے محروم ہونے پڑے گا۔‘‘ ملالہ یوسف زئی نے کہا’’فلسطینی بچّے کو کلاس روم میں بیٹھا ہونا چاہیے، نہ کے ملبے کے ڈھیر پر۔‘‘THE UNITED NATIONS OFFICE FOR THE COORDINATION OF HUMANITARIAN AFFARIRS (OCHA) کے مطابق، ستمبر 2002ء سے جولائی 2007ء تک حملوں میں 971 بچّے جاں بحق ہوئے‘ جن میں سے زیادہ تر کے سینے اور سَر پر زخم آئے تھے۔ 

ان میں 88 فی صد فلسطینی اور 12 فی صد اسرائیلی بچّے شامل ہیں، جب کہ ڈیفینس فار چلڈرن انٹرنیشنل (فلسطین) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2000ء سے 2021ء تک2 ہزار 194 فلسطینی بچّے شہید ہوئے۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوری 2001ء سے مئی 2003ء تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار 816 فلسطینی بچّے زخمی ہوئے۔ 1987ء میں پہلی انتفاضہ شروع ہوئی، تو اُس میں بچّوں نے بھی پتھروں اور غلیلوں کے ذریعے حصّہ لینا شروع کیا۔ اگلے دو برسوں کے دَوران29 ہزار 900 زخمی بچّوں کو طبّی امداد کی ضرورت پڑی، جب کہ 1987ء سے 1990ء تک کے تین برسوں میں 18 اسرائیلی اور 281 فلسطینی بچّے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

امریکا نے 2003ء میں عراق پر حملہ کیا‘ جس کے نتیجے میں صدام حکومت کا خاتمہ ہوا۔ گو کہ چند برسوں بعد عراقیوں پر مشتمل حکومت قائم کر دی گئی، مگر اس کے ساتھ ہی خانہ جنگی کا بھی آغاز ہو گیا اور پھر اس میں داعش کا عُنصر بھی شامل ہوگیا۔ ان دو دہائیوں میں وہاں لاکھوں افراد مارے گئے۔ ’’عراق باڈی کائونٹ‘‘ نامی ادارہ 2003ء سے عام شہریوں کی ہلاکت کے اعداد و شمار اکٹھے کر رہا ہے۔ اس کے مطابق، 2021ء تک 2 لاکھ 8 ہزار 964 عام افراد براہِ راست حملوں میں ہلاک ہو چُکے ہیں۔ تاہم، کئی دیگر عالمی ادارے یہ تعداد ساڑھے چھے لاکھ تک بتاتے ہیں‘ جس میں18 فی صد بچّے شامل ہیں۔ 

واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون نگار کے مطابق’’اسے یوں سمجھ لیجیے‘ جیسے واشنگٹن ڈی سی کے ہر مرد‘ عورت اور بچّے کو قتل کر دیا جائے۔‘‘ مقامی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، صرف موصل اور گرد و نواح میں داعش کے ساتھ جنگ میں ایک ہزار سے زاید بچّے جاں بحق ہوئے۔ یمن بھی 2014ء سے جنگ میں جل رہا ہے۔ امریکا میں قائم آرمڈ کنفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پراجیکٹ (اے سی ایل ای ڈی) کے مطابق، اکتوبر 2019ء تک براہِ راست حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سوا لاکھ سے زاید تھی‘ جن میں12 ہزار عام شہری بھی شامل ہیں۔الجزیرہ نے23 مارچ 2021ء کو’’ سیو دی چلڈرن‘‘ کے حوالے سے رپورٹ دی کہ مارے جانے والے عام افراد کا ایک چوتھائی حصّہ بچّوں پر مشتمل ہے۔وہاں 2018ء اور 2020ء کے درمیان2 ہزار 300 بچّے جاں بحق ہوئے۔ اِس جنگ میں30 لاکھ سے زاید افرد بے گھر ہوئے، جب کہ 20 لاکھ بچّوں کو کم غذا کا سامنا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے ادارے،او سی ایچ اے کی دسمبر 2020ء کی رپورٹ کے مطابق،2 لاکھ33 ہزار افراد یمن جنگ کا شکار بن چُکے ہیں‘ جن میں ایک لاکھ31 ہزار افراد خوراک کی کمی اور صحت کی ناکافی سہولتوں کے سبب جاں بحق ہوئے، جن میں5 ہزار سے زاید بچّے بھی شامل ہیں۔اِسی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس نے گزشتہ دنوں بیان دیا کہ’’ یمن میں ہر10 منٹ میں ایک بچّہ جاں بحق ہو رہا ہے۔‘‘

مقبوضہ کشمیر بھی اُن علاقوں میں شامل ہے‘ جہاں بچّوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔4جون 2021ء کو کشمیر میڈیا سروس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 32 برسوں میں بھارتی سیکوریٹی فورسز نے904 بچّوں کو شہید‘ جب کہ ایک لاکھ 7 ہزار سے زاید کو یتیم کر دیا۔ نیز، بچّوں کے خلاف پیلٹ گنز کا بھی بے رحمانہ استعمال کیا گیا‘ جس سے متعدّد بچّوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔ 

رواں برس جولائی میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کاؤنسل میں’’چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلیکٹ رپورٹ‘‘ پیش کی‘ جس میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں 13 لڑکوں اور 2 لڑکیوں کے قتل اور 68 بچّوں کی گرفتاری کا بھی ذکر تھا۔ اس موقعے پر انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ’’مَیں جمّوں و کشمیر میں بچّوں کی ہلاکتوں سے پریشان اور اُن کے لیے دُعا گو ہوں۔‘‘ اُنہوں نے بچّوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔

زندگی بھر کی معذوری

عوام پر مسلّط اِن جنگوں کا ایک اَلم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے سبب معذور نسلیں تیار ہو رہی ہیں۔اِن جنگوں میں زخمی ہونے والے بچّوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن میں سے بم باری‘ دھماکوں اور بارودی سرنگوں وغیرہ کا نشانہ بننے والے ہزاروں بچّے عُمر بھر کے لیے ہاتھ پائوں یا دیگر اعضا گنوا بیٹھے‘ جب کہ بہت سے تو بستر سے لگ کر مُردوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس کی جانب سے یمن جنگ پر جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8 اپریل 2013ء سے دسمبر 2018ء کے دوران 7 ہزار 508 بچّے شدید زخمی ہوکر ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوگئے۔ 

جرمن نشریاتی ادارے نے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ شامی جنگ میں 15 لاکھ افراد معذور ہوچُکے ہیں، جن میں بچّوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ ایسی ہی کچھ اطلاعات افغانستان اور عراق سے بھی ہیں، جہاں ہر طرف معذور بچّوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے، روس کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ میں بھی 3 لاکھ بچّے معذور ہوئے تھے، جس میں حالیہ جنگ نے مزید اضافہ کردیا۔

اَن پڑھوں کا لشکر

المیہ تو یہ بھی ہے کہ جنگ زدہ علاقوں کے بچّے اپنی تعلیم تک جاری نہیں رکھ پا رہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جنگوں نے اُن کے ممالک کا نظام اتھل پتھل کر دیا ، پھر یہ کہ نقل مکانی کے سبب بھی بچّوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا اور کئی ممالک میں اسکولز کو بموں سے اُڑا کر حصولِ تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئیں۔ یونیسیف کے مطابق، ساڑھے 27 لاکھ سے زاید شامی بچّے اسکولوں سے باہر ہیں‘ جب کہ وہاں جنگ کے دَوران300 تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا چُکا ہے۔

چند ماہ قبل افغانستان کی وزارتِ تعلیم کا کہنا تھا کہ مُلک میں18 ہزار اسکول کام کر رہے ہیں‘ جن میں97 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اُن میں42 فی صد لڑکیاں ہیں۔تاہم، اقوامِ متحدہ کے مطابق، افغانستان کے نصف بچّے نقل مکانی‘ سیکوریٹی اور غربت کے سبب اسکول نہیں جا پا رہے، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ یونیسیف نے یہ بھی بتایا کہ 2017ء اور 2019ء کے دَوران افغانستان میں 300 سے زاید اسکولوں پر حملے کیے گئے‘ جن میں 410 بچّے ہلاک یا زخمی ہوئے۔شام میں اکثر اسکول تباہ ہو گئے ہیں اور دو ملین بچّے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں، جن میں 40 فی صد لڑکیاں ہیں۔

ننّھے مزدور

افغانستان، شام، یمن اور فلسطین میں 15 برس سے بھی کم عُمر بہت سے بچّے اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں۔ جنگوں نے نو عُمری ہی میں ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اُنھیں بازاروں میں لاکھڑا کیا ہے۔اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِن جنگوں میں لاکھوں افراد کی ہلاکت نے بچّوں کو یتیمی کی آزمائش سے دوچار کردیا ہے۔ نیز، جنگوں نے ایک طرف کاروبار تباہ کیا، تو دوسری طرف لاکھوں افراد دربدر ہوئے، جس سے غربت میں اضافہ ہوا۔ اِس لیے اگر والدین زندہ ہیں، تب بھی وہ بچّوں کی کمائی پر مجبور ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ’’ غربت کے شکار اکثر خاندان بچّوں کی تعلیم ترک کروا کر اُنہیں اسکول بھیجنے کی بجائے کام کاج پر بھیج رہے ہیں۔‘‘جنگوں نے کئی ممالک میں جہاں چائلڈ لیبر کو فروغ دیا ہے، وہیں بھکاریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن میں بچّے بھی شامل ہیں۔

بھیڑیوں کا آسان شکار

کم عُمری میں روزگار کے لیے باہر نکلنے سے جہاں بچّوں کی تعلیم اور اُن کا بچپنا متاثر ہو رہا ہے، وہیں وہ جرائم پیشہ افراد کا بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ خاص طور پر اُنھیں جنسی استحصال کا سامنا ہے۔اگست 2017ء میں امریکی کانگریس میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں الزام عاید کیا گیا کہ افغان سیکیوریٹی فورسز کم عُمر لڑکوں کے ساتھ نازیبا حرکات میں ملوّث ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق، اسپیشل انسپیکٹر جنرل آف افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) کا کہنا تھا کہ حکّام اِس عمل کو روکنے میں ناکام رہے۔ 

رائٹر کو یہ بھی بتایا گیا کہ’’ افغانستان میں بچّوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اور لڑکوں کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔خاص طور پر دیہات سے بڑے شہروں میں آنے والے بچّوں کو اِس قسم کی سرگرمیوں میں ملوّث ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘اقوامِ متحدہ کے مرتّب کردہ اعداد و شمار سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2013 ء سے 2018 ء تک شام کے 693بچّے اغوا ہوئے، جو اب تک لاپتا ہیں۔ ان بچّوں کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انھیں منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہوگا۔

’’ پاگل‘‘ بچّے

جب کوئی بچّہ اپنے سامنے اپنے کسی پیارے کو قتل ہوتا دیکھے، جہاز آئیں اور اُس کے گھر کو ملبے میں تبدیل کردیں، ہرطرف دھماکوں کی آوازیں ہوں، تو اِن حالات میں اُس کے ذہن پر جو اثرات مرتّب ہوں گے، اُس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔اقوامِ متحدہ نے شامی خانہ جنگی کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے بڑا انسانی المیہ قرار دیا ہے کہ اس کے سبب20 لاکھ بچّوں کو صدمے سے نکلنے کے لیے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ 

یونیسیف وہاں کے377000 بچّوں کو نفسیاتی علاج کی سہولت فراہم کر چُکا ہے، مگر اُس کا کہنا ہے کہ’’ بحران بہت بڑا ہے۔بچّوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی مسائل کا شکار ہے، خاص طور پر بے گھری اور پناہ گزینی کا شکار ہونے والے بچّوں کا المیہ ناقابلِ بیان ہے۔ تشدّد اور ظلم کے ماحول میں رہنے سے 2020 ء میں بچّوں میں نفسیاتی مسائل کی تعداد دگنی ہو گئی۔‘‘ٹی آر ٹی ورلڈ کی رپورٹ کے مطابق، 54.7فی صد سے زاید فلسطینی بچّوں نے اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ تکلیف دہ واقعے کا تجربہ کیا ہے اور اسرائیل کے مسلسل حملوں سے اُن میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘

بچّہ فوج

یونیسیف کے مطابق’’ 18 سال سے کم عُمر کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو کسی بھی طرح کے فوجی امور میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ عُمر کی یہ حد 2002ء میں مقرّر کی گئی، اِس سے قبل 1949ء کے جینوا کنونشن میں 15 برس عُمر طے پائی تھی۔گزشتہ دنوں ایک امریکی رپورٹ میں تُرکی پر الزام عاید کیا گیا کہ اُس نے شام اور لیبیا میں اپنے حمایت یافتہ گروپس کی جانب سے بچّوں کو جنگ میں استعمال کرنے میں معاونت کی۔’’آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس‘‘ کا کہنا ہے کہ تُرکی کی جانب سے لیبیا میں نیشنل آرمی کے خلاف لڑائی کے لیے بھرتی کیے گئے16 شامی بچّے تازہ لڑائی میں مارے گئے۔ایک رپورٹ کے مطابق شامی جنگ میں5 ہزار 700 سے زاید بچّوں کا، جن میں 7 سال سے کم عُمر بچّے بھی شامل ہیں، استعمال کیا گیا۔850 سے زاید بچّوں کو جنگ کرنے اور خود کُش حملوں پر مجبور کیا گیا ۔

اِس ضمن میں داعش کا خاص طور پر ذکر ضروری ہے، جس نے بچّوں کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا، جب کہ افغان جنگ میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں کم عُمر بچّوں کے ذریعے مخالفین پر خود کُش حملے کروائے گئے۔رواں برس 9 اگست کو انسانی حقوق گروپ’’میون‘‘ نے’’ بچّے بندوقیں نہیں‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں 13 سے 17 سال کی عُمر کے اُن بچّوں کے نام دیے گئے،جو یمن میں حوثی ملیشیا کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے مارے گئے۔ان بچّوں کی تعداد 640 بتائی گئی۔

رواں برس مئی میں’’ بچّے اور مسلّح تنازعات‘‘ کے موضوع پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2020ء کے دَوران 211 بچّوں کو یمنی جنگ میں لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ اُن میں سے 134 لڑکوں اور 29 لڑکیوں کو حوثی باغیوں نے بھرتی کیا، جب کہ یمنی فوج میں بھی 34 کم عُمر فوجی شامل تھے۔ایک غیر تصدیق شدہ رپورٹ کے مطابق، حوثی ملیشیا نے 2014ء سے اب تک 10 ہزار 300 بچّوں کو فوج میں جبری بھرتی کیا۔یورو مڈل ایسٹ برائے ہیومن رائٹس اور 'فریڈم فارہیومن رائٹس کی طرف سے’’ جنگ کے لیے بچوں کی بھرتی روکنے کے عالمی دن‘‘ کے موقعے پر جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ حوثی ملیشیا بچّوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ میں جھونک رہی ہے۔

آسمان ہی چھت ہوا

گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگوں میں لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے، جس کے سب سے زیادہ منفی اثرات بچّوں پر مرتّب کیے۔30 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین آج بھی پاکستان اور ایران کی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں، جب کہ اندرونِ مُلک اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر مقامات پر پناہ لینے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ لاکھوں شامی تُرکی اور دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں اور ہزاروں فلسطینی بھی مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اِس صُورتِ حال نے بچّوں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کی ہے اور اُنھیں مایوسیوں نے اپنے حصار میں لےلیا ہے۔

خطرناک قیدی

جی ہاں، اگر آپ نے خطرناک قیدی دیکھنے ہوں، تو اسرائیل، شام، یمن اور مقبوضہ کشمیر کی’’ بچّہ جیلیں‘‘ دیکھ لیں، جہاں خطرناک ترین قیدی بند ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ’’ اسرائیلی فوج ہر سال500 سے زاید فلسطینی بچّوں کو گرفتار کر لیتی ہے، جن میں سے کچھ کی عُمریں 12 برس کے لگ بھگ ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کا مؤقف ہے کہ’’ گرفتار کیے جانے والے بچّے قومی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔‘‘200 سے زاید 18 سال سے کم عُمر بچّے اس وقت بھی اسرائیلی قید میں ہیں۔اس ضمن میں مقامی فلسطینی ادارے کا کہنا ہے کہ’’ 2000ء کے بعد اسرائیلی فوج نے کریک ڈائون مہم کے دَوران17 ہزار کم سِن فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔ 

اُن میں سے بعض کی عُمریں 10 سال سے زیادہ نہیں اور ان میں سے تین چوتھائی بچّوں کو عقوبت خانوں میں وحشیانہ تشدّد اور جسمانی و نفسیاتی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بچّوں کو گرفتار کرنا معمول کی بات ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی افسوس کا اظہار کر چُکے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق، شام میں اسد حکومت، اُس کی اتحادی میلشیا اور مخالف دھڑے بچّوں کو قید میں رکھنے میں ملوّث ہیں۔

عالمی ضمیر جاگا، پھر سوگیا

ستمبر 2015ء میں تُرکی کے ساحل پر ایک کم سِن شامی بچّے کی تیرتی لاش کی تصویر نے پوری دنیا کو رُلا دیا۔ ہر طرف آہیں، سسکیاں سُنائی دیتی تھیں۔ لگتا تھا، دنیا اب ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی، جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے، زور دار بیانات داغے گئے اور پھر سب دوبارہ سو گئے۔شام کے شہر حلب میں فضائی حملے میں تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے سے نکالے گئے بچّے کی تصویر بھی شہ سرخیوں میں رہی، جو خون آلود چہرے کے ساتھ، گم صم ایمبولینس میں بیٹھا تھا۔

اُس فلسطینی بچّی پر بھی مضامین لکھے گئے، جس نے بھوک سے نڈھال ہو کر ربّ سے فریاد کی’’ یااللہ! مجھ سے زندگی لے لے تاکہ میں جنّت میں کھانا کھا سکوں۔‘‘وہ شامی بچّی بھی بہت دنوں تک ہمارا موضوعِ گفتگو رہی، جس نے دَم توڑتے ہوئے کہا تھا’’ مَیں اپنے اللہ کے پاس جا کر سب کچھ بتائوں گی۔‘‘لیکن …اِن بچّوں کی فریادیں، آہیں، سسکیاں، ملبے کے ڈھیر…کچھ بھی ہمیں امن کی طرف متوجّہ نہیں کرسکا…!!!

تازہ ترین