• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے توسط سے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کی غیر مصدقہ نقل سامنے آئی ہے۔ اس امر سے قطع نظر کہ الجزیرہ نے حتمی رپورٹ شائع کی ہے یا ابتدائی مسودہ، یہ امر پایہٴ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کے ذمہ دار سیاسی اور عسکری رہنمااسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے آگاہ نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری طور پر دہشت گردی کی اعانت کا الزام تو ساقط ہو گیا لیکن ریاستی غفلت اور نااہلی کے ضمن میں ایسے سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن کا پاکستان کی داخلی سیاست ، معاشی امکان اور تمدنی مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ بیرونی دنیا کے لئے تو ایک سادہ سوال تھا کہ اپنے شہریوں کو دہشت گردی سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اسامہ بن لادن مارا گیا۔ القاعدہ مسلم اکثریتی دنیا میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکی اور اس کی قیادت پناہ گاہوں کی تلاش میں ہے۔ دنیا کا مسئلہ تو حل ہو گیا، ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ بنیادی فیصلے کرنا تھے ، اپنی اجتماعی ترجیحات کو نئے سرے سے طے کرنا تھا اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس سمت میں قدم بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ 337صفحات پر محیط اس مبسوط دستاویزکا اہم ترین حصہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کا بیان ہے جس کے متن اور زیر متن پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا جسے خفیہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔ کمیشن نے 27مارچ 1989 ء کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ ”اس امر کی نشان دہی کرنا انتہائی ضروری ہے کہ خارجی محاذ پر آئی ایس آئی کی نہایت شاندار کارکردگی اس لئے دھندلا گئی ہے کہ یہ ادارہ ملک کے داخلی سیاسی امور میں بے جا طور پر ملوث رہا ہے۔ یہ سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ “ 24برس بعد ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ایئر مارشل ذوالفقار علی خان کے حکیمانہ مشورے پر کان نہیں دھرا تھا اور اب بھی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
جنرل پاشا فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں بھی ہے تو اس طرف بڑھ ضرور رہا ہے۔ جنرل پاشا کی رائے درست نہیں۔ پاکستانی ریاست نہیں، ریاست کے بنیادی اجزا کے ساتھ طالع آزما اہلکاروں کی کھلواڑ ناکام ہوئی ہے۔ 18کروڑ انسانوں کا امکان ناکام نہیں ہوا کرتا۔ جدید قومی ریاست ایک ایسا بندوبست ہے جو ترقی کی دوڑ میں پچھڑ تو سکتا ہے لیکن قدیم سلطنتوں کی طرح شکست و ریخت کا شکار نہیں ہو سکتا۔ دراصل پاکستان میں ریاستی اداروں نے جمہوری بندوبست میں غاصبانہ مداخلت کر کے سیاست، معاشرت اور قومی سلامتی کا جو نمونہ اختیار کیا تھااس کے تاروپود بکھر رہے ہیں۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہشت گردی کا سوال داخلی سیاست کے تانے بانے میں الجھا ہوا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد میں مدد کے لئے ملک کے اندر جو اتحادی دریافت کئے گئے تھے ان کا اپنا ایک سیاسی ایجنڈا تھا۔ ہیئت مقتدرہ اور دائیں بازو کی ان سیاسی قوتوں کے اتحاد کے نتیجے میں جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں اور نظریاتی مفروضات کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو ریاستی قوت کے بل پر دیوار کے ساتھ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار دینے کا چلن تو ساٹھ کی دہائی میں شروع ہو گیا تھا لیکن نظریاتی ریاست کے حقیقی خدوخال 80ء کی دہائی میں واضح ہوئے۔ آئی جے آئی کی تشکیل سے لے کر میمو گیٹ اسکینڈل تک ایک ہی رویہ نظر آتا ہے کہ جو بالادست سیاسی بیانیے سے اختلاف کرے، اسے ملک دشمن قرار دے دیا جائے۔ بات یہ ہے کہ نظریاتی ریاست جمہوری نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ نظریاتی ریاست میں مخالفین کو منحرف قرار دے کر قابل گردن زنی ٹھہرایا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہمارا بنیادی مخمصہ یہی رہا ہے کہ ہم 80ء اور 90ء کی دہائی کے یک طرفہ ریاستی بیانیے کو زندہ رکھنے کے کار لاحاصل میں الجھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ اسامہ بن لادن کو کیوں ڈھونڈا نہ جا سکا۔ غفلت کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنا چاہتے تھے!اس کا جواب پچھلے پندرہ سال میں سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور ذرائع ابلاغ میں جاری مکالمے میں تلاش کیجئے۔ ایبٹ آباد کمیشن ایک ایسی ناکامی ہے جس کا ملبہ جنرل پاشا نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو چھوڑ کر سب پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جنرل صاحب کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی سے چند سو گز کے فاصلے پر واقع ”عرب حویلی“ کے مکینوں کی نشان دہی کرنا پولیس کی ذمہ داری تھی۔ اس پر منو بھائی یاد آگئے۔ 80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو صاحب کی پھانسی کی ذمہ داری ادھر اُدھر ڈالنے کی کوشش میں تھی۔ منو بھائی نے لکھا تھا کہ جرنیلوں ، عدالت اور امریکہ کا تو کوئی دوش نہیں، تارا مسیح کو البتہ اختیار تھا۔ اگر چاہتا تو بھٹو صاحب کو پھانسی نہ ہوتی۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ جنرل صاحب کو گلہ ہے کہ سیاسی قیادت میں مطالعہ اور غور و فکر کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ (اگرچہ جنرل صاحب کی حقیقی مراد سرکاری فائلوں کے مطالعے سے ہے)۔ جنرل صاحب کو یاد دلانا چاہئے کہ مطالعہ اور تفکر کی ثقافت اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پیدا ہوتی ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں کی صورت حال کا اندازہ ملک کی قدیم ترین جامعہ کے وائس چانسلر کے خیالات سے لگایا جا سکتا ہے جو کہتے ہیں کہ 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں ایک ڈرامہ رچایاگیا تھا۔کیا اچھا ہو کہ ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ کی ایک نقل فزکس کے اس استاد کو بھی بھیج دی جائے تاکہ وہ اپنی بیان کردہ سازش کے خاکے میں کماحقہ رنگ بھر سکیں۔
جنرل صاحب کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد کے واقعے کی ذمہ داری کسی فرد یا ادارے کی بجائے اس مجموعی صورت حال پر عائد ہوتی ہے جس میں ریاست کا تانا بانا بکھر رہا ہے اور کوئی ادارہ یا فردمطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر رہا۔ انہیں افسوس ہے کہ ایبٹ آباد واقعے کے بعد سیاسی قیادت کی خاموشی تکلیف دہ تھی۔ صاحب پانچ روز تک تو مقتدر حلقوں سے بھی آواز نہیں آئی۔ اس بات کو ایک طرف رکھئے کہ کیا ایک سرکاری اہلکار کے لئے اپنے ملک کی سیاسی قیادت پر اس نوع کی قدر پیمائی جائز ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو ان نازک معاملات میں دخل دینے کی اجازت ہی کب ملی تھی۔ غریب سیاست دان تو اہلکاروں اور قلم کاروں کی خود ساختہ اصطلاح ’سکیورٹی رسک‘ کا دھبہ ہی دھوتے رہے۔ جنرل صاحب خود کہتے ہیں کہ جو آئی ایس آئی سے خوفزدہ ہیں، انہیں آئی ایس آئی سے خوف کھانا ہی چاہیے۔ صاحب قومی ذمہ داری کا احساس تو شخصی آزادی کی آب و ہوا میں جنم لیتا ہے۔ خوف کے ماحول میں تو نااہلی کی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں۔ اور ایک صاحب دل نے بہت عرصہ پہلے ہمارے بارے میں کہا تھا کہ ہم سب بالشتیے بن چکے ہیں۔ برخود غلط سرکاری اہل کاروں کی غیر جوابدہ بالادستی کے ہوتے ہوئے قومیں تعمیر نہیں ہوا کرتیں۔ قومی تعمیر کا پھول نظریاتی گملے میں نہیں کھلتا۔ اسے جمہوری حکمرانی کی مٹی، دستور کی روشنی اور اختلاف رائے کی کھاد درکار ہوتی ہے۔
تازہ ترین