• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی انسان کوغار میں رہنے والے اپنے ان آبائو اجداد پر ترس آتاہے جن کے پاس موبائل فون تھااور نہ لیپ ٹاپ۔ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہ تھا۔ 20 بندے شکار کرنے نکلتے ،واپس 19 آتے۔ بیسویں کاکبھی پتہ ہی نہ چلتا کہ کس گڑھے میں گر کے مر گیا۔ آج کا انسان Well Connectedہے ؛حتیٰ کہ ہوائی جہاز تباہ بھی ہو جائے تو بلیک باکس بہت کچھ بتا دیتا ہے۔

ہمارے بچپن میں لوگ ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے۔ محبت کرنے والے جب دوردراز کے شہروں میں اپنے شریکِ حیات کو خط لکھا کرتے تو سسرال کی تلخ باتوں کو پی جایا کرتے۔ اس کے بعد آئے تار والے فون۔ پھردنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انٹرنیٹ کی تار بچھا دی گئی۔ سیٹلائٹ کے ذریعے لوگ ہر لمحہ رابطے میں رہنے لگے۔ پھرموبائل فون آیا ، واٹس ایپ آئی اور فیس بک۔ اور دنیا ہی بدل گئی۔

اب شوہر دفتر میں کام کر رہا ہوتاہے کہ بیوی کا پیغام ملتا ہے : میں تمہاری ماں کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی۔ غصہ پہلے بھی آتا تھا لیکن شوہر کے گھر آنے تک اکثر سیز فائر ہو چکا ہوتا۔ آج آپ کا بیٹا مشکل سے بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو فیس بک ، موبائل اور واٹس ایپ پر وہ چھ لڑکیوں کے ساتھ رابطے میں ہوتاہے۔ ہر طرف سے بیلنس کٹ رہا ہے جو بالآخر باپ کی جیب سے ہی ادا ہوتاہے۔ نو بیاہتا دلہنیں لمحہ بہ لمحہ اپنے سسرال کی رپورٹیں میکے پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ پہلے چونکہ رابطہ نہیں ہوتا تھا تو دو ماہ بعد جب اپنے میکے والوں سے ملاقات ہوتی تو اس وقت تک دانش غالب آچکی ہوتی۔

قدیم زمانے کا انسان فوکسڈ تھا۔ وہ علوم و فنون پہ دسترس حاصل کیا کرتا۔ آج ہر ایک منٹ کے بعد فیس بک اور واٹس ایپ کا الرٹ۔ پہلے موبائل فون پر ٹیکسٹ پیغام بھیجنے کا جنون پیدا ہوا۔ میسجز کے پیکیج کرائے جانے لگے اور پورا دن ایک دوسرے کو فضول لطیفے بھیجے جاتے۔ واٹس ایپ نے میسجز کو چار چاند لگا دیے۔ اوپر سے موبائل میں کیمرہ لگ گیا۔ سرجن دورانِ آپریشن اپنی سیلفیاں لیتے پائے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے انسانی فرصت کا جنازہ نکال دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گاڑی چلاتا ہوا شخص میسج ٹائپ کرنے کی کوشش میں گاڑی دے مارتا ہے۔

دورجدید کا انسان ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی خام خیالی ہے کہ یہ رابطہ صرف نعمت ہے۔ درحقیقت یہ ایک لعنت بن چکا۔ آج سوشل میڈیا فساد کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ شادیاں اس کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ دلہن کی ماں عمران خان کی حمایت میں پوسٹ کرتی ہے تو دولہے کا باپ نواز شریف کے حق میں کمنٹ کر ڈالتاہے۔ تلخی جنم لیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر چوبیس گھنٹے متضاد سیاسی و مذہبی نظریات کے حامل ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ ایک آدمی صحافی ہے تو پھر بھی وقت کا یہ زیاں سمجھ آتاہے لیکن 95فیصد افراد تو فی سبیل ﷲ اپنی توانائیاں اور وقت ایک دوسرے کو اپنے نظریات پر قائل کرنے کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں فشارِ خون بلند ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ ہمہ وقت خوف اور غصے کا شکار رہنے لگے ہیں اوربلا معاوضہ۔

میں اگر مذہبی ہوں یا کسی خاص سیاسی جماعت کا حامی تو میں تمام رشتے داروں ،بچپن کے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو اس پہ قائل کرنے پر کیوں جتا ہواہوں؟ سیاسی مخالفت پر لوگ رشتے کھو رہے ہیں۔ سب لوگوں کے سامنے کوئی آپ کے موقف کو غلط کہے تو پھر انا کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھا ہوا شخص رحیم یار خان میں اپنے خالہ زاد کے سیاسی و مذہبی نظریات پر قطع تعلقی کیے بیٹھا ہے۔ اگر آپ میرے نظریات اختیار کر بھی لیں تومجھے کیا ملے گا؟ میرے بچوں کی خوراک اورلباس کے مسائل تو جوں کے توں رہیں گے۔ آج اہلِ خانہ دعا کرتے پائے جاتے ہیں کہ خدا ہدایت دے ہمارے بیٹے کو کہ اپنی نظریاتی لڑائیوں سے فارغ ہو کر کچھ کماکر بھی لائے۔

سوشل میڈیا پر اس قدر وقت اور توانائی ضائع ہو رہی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ آپ ضروری سے ضروری کام کرتے ہوئے صرف ایک لمحے کے لئے فیس بک کھولتے ہیں اور پھر اِس میں کھو جاتے ہیں۔ آپ ہر چند منٹ بعد واٹس ایپ پر دوسروں کے اسٹیٹس دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہ میرا سٹیٹس کس کس نے دیکھا۔ بغیر کسی فائدے کے۔

واٹس ایپ پر ہم بیس سال پرانےا سکول کے دوستوں نے ایک گروپ بنایا تھا۔ یہ بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن کئی سال سے اس پرنون لیگ اور پی ٹی آئی کی حمایت میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ بچوں اور بڑوں کا فاصلہ مٹ چکا ہے۔ بچے جو باپ سے احتراماً فاصلے پر رہتے تھے، اب حد سے زیادہ فری ہو چکے ہیں۔ اسمارٹ فون استعمال کرتے کرتے آگے کو جھکی ہوئی آدمی کی گردن تھک چکی ہے۔ یہ گردن کے مہروں کے لئے نقصان دہ ہے۔ لوگ چلتے ہوئے، سیڑھیاں اترتے ہوئے گردن جھکائے موبائل کی اسکرین پر نظریں جمائے رہتے ہیں اور حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ﷲ قریش کو اپنا احسان گنواتا ہے کہ بھوک میں ، میں نے تمہیں خوراک دی اور خوف میں امن۔ اب جو شخص سوتے میں بھی سوشل میڈیا پر اپنی ٹرولنگ سے ڈرا ہوا ہے ، اس کے پاس کون سا امن رہ گیا ؟ جب امن یعنی Peace Of Mindہی نہیں رہا تو باقی کیا بچا؟ پھر کھانا حلق سے اترے تو کیسے اترے ؟ یہ ہے جدید ترقی یافتہ انسان کی قابلِ رحم زندگی۔

تازہ ترین