• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پڑوس میں رونما ہونےوالی تبدیلی سے اطراف کے ممالک کا متاثرہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن جس طرح پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں،اُس کی نوعیت مختلف ہے۔اس سے ان ممالک کی سیاست بھی متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتی۔دونوں ممالک کے تعلقات میں اگرچہ ابتداہی سے سردمہری تھی لیکن ان میں جذباتی یا ہیجانی اختلاف کی کیفیت نہیں تھی،بنابریں جب 1965میں پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ نے پاکستان کو یہ پیغام بھیجاکہ وہ ڈیورنڈلائن کے اِس پار سے بے فکر رہے،پاکستان نے اس کا پرجو ش خیرمقدم کیا۔ 1973 میں محمد ظاہر شاہ کے غیر ملکی دورے کے دوران اُن کے چچا زاد بھائی داؤد خان نے پرامن انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوری اصلاحات کا اعلان کیا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات نے بھی نیا رُخ اختیار کرلیا۔اس وقت پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو برسراقتدار تھے ، باہمی تعلقات اُس وقت سنگین ہو گئےجب1975میں گلبدین حکمت یارسمیت 80سے زائد طاقتورسیاسی خاندان پشاور منتقل ہوئے۔ بھٹوحکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاالحق کے ابتدائی ایام میں ممتاز سیاستدان خان عبدالولی خان کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر آگئے،جنرل ضیاالحق نے افغانستان اور سرداردائود نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دوران سردار دائودقتل کردئیے گئے اور افغانستان میں نورمحمد تر کئی کی قیادت میں انقلاب برپاہواجسےانقلاب ثور کا نام دیا گیا۔یہ وہ دور تھاکہ جب پہلی مرتبہ رجعت پسند قبائلی معاشرے کو سائنسی بنیادوں پر چیلنج کیا گیا، تاہم ہوایہ کہ ایک تو نورمحمدترکئی جیسے دانشوروادیب سیاستدان جن کے ناول نہ صرف معاشرے کا درست عکس لئے ہوتے تھے بلکہ وہ خود انسانی آدرشوں کی تکمیل کیلئے غلامانہ زنجیروں کو اکھاڑ پھینکنےکے مصمم ارادے کے ساتھ درد دل بھی رکھتے تھے ،وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ افغانستان کا قبائلی معاشرہ فوری طور پر کس طرح اس تبدیلی کیلئے آمادہ ہوسکے گا،تو دوسری طرف انقلابیوں کے درمیان باہمی کشت وخون خلق پارٹی و پرچم دھڑوں کابننا جیسی مہم جوئی سے انقلاب بیچ چوراہے پر رسوا ہوا، نور محمد ترکئی کے قتل اور بعدازاں سوویت یونین کے افغانستان میں آنےسے امریکہ کو وہ موقع ہاتھ آیا کہ جہاں سوویت یونین سے ویت نام کا بدلہ لے سکے، وہاں سرمایہ دارانہ مخالف نظریہ کمیونزم کیلئے افغانستان ہی کو قبرستان بنایا جاسکے،یہ وہ دور تھاجب خطے بالخصوص پاکستان میں مذہبی جماعتیں ایک قوت بن کر اقوام عالم کے پر نمایاں  ہوئیں۔ اس دور ہی میں دو نظریات کھل کر ایک دوسرے کے سامنے تھے،ایک طرف ترقی پسنداور قوم پرست جماعتیں تھیں تو دوسری طرف رجعت پرست ومذہبی جماعتیں،یہ تفریق دائیں اور بائیں بازوکی شناخت سے معروف تھی۔بات ہوتے ہوتے جب آج سقوط کابل تک پہنچی ہے تو اگرچہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکاہے لیکن پاکستان کی پختون قوم پرست سیاست وہیں پر کھڑی ہے جہاں قبل ازیں تھی،البتہ اس مرتبہ انہیں اُن ترقی پسند،لبرل جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں ،جو ڈاکٹر نجیب ﷲ کے دورمیں سقوط کابل کے وقت تھی۔واقعہ یہ ہے کہ جدید قوم پرست سیاست گردش لیل ونہار کےمطابق ڈھلتی ہے، لیکن پختون قوم پرست ماضی سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں  سکتے،اسکی ایک وجہ جارح قوم پرستی بھی ہے۔ باچا خان، عبدالصمداچکزئی اور ولی خان کا کمال یہ تھا کہ وہ حقائق کی روشنی میں رائے عامہ ہموار کرتے تھے اور وقت اُن کے کہے کو درست بھی ثابت کرتا،آج کا واقعہ مگر یہ ہے کہ قوم پرست یہ جان ہی نہیں سکے کہ درحقیقت ہوا کیاہے؟یہ حیرانی تو اُن کوبھی ہے جن کے ہاتھ میں اس وقت کابل کی باگ ڈورہے لیکن بہرصورت وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ راستہ کن صورتوں میں ممکن بنا۔سب سے زیادہ زیربحث سابق صدر اشرف غنی کا کردارہے قوم پرستوں کا ایک طبقہ جہاں انہیں  ہیرو قرار دیتا ہے کہ اُنہوں نے کشت وخون کی بجائےکابل چھوڑنے کو ترجیح دی،تو دوسری سوچ کے مطابق اشرف غنی نے حامدکرزئی و عبدﷲ عبدﷲ کی کوششوں کی حمایت کااعلان کرکے دراصل اُس ایجنڈے کو تقویت دی ہے جس کےتانے بانے امریکہ سے جڑے ہیں۔ وہ یہ بھی نقد کرتے ہیں کہ بھاری بھرکم فوج کے ساتھ کابل سے باہر مختلف صوبوں میں مقابلہ کیا جا سکتا تھا جہاں بہ وجوہ نہیں کیاگیا۔ان تمام باتوں سے قطع نظر دیکھنا یہ ہے کہ قوم پرست جماعتیں پاکستان میں درپیش سیاسی چیلنجز سے کس طرح عہدہ برآہوتی ہیں۔ مساجد ومکتب کے توسط سےجہاں مذہبی جماعتیں ہمہ وقت عوام سے رابطےمیں رہتی ہیں، وہاں موجودہ صورتحال کے تناظر میں قدامت پسند معاشرے پر ان کی گرفت اور بھی مضبوط ہو سکتی ہے، ایسی صورت میں منتشر بلکہ کافی حد تک ایک دوسرے سے برسر پیکار قوم پرست کس طرح اپنے نظریات کی آب وتاب کو برقرار رکھتے ہیں یہ ابھی دیکھنا ہے۔

تازہ ترین