• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ہمیں دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہیں یا کھلم کھلا جنگ؟ کیا ہمیں ڈرون حملوں کی مخالفت کرنا چاہئے یا اس کے منتخب (SELECTIVE) استعمال کی حمایت؟ وقت آگیا ہے کہ ہم غلط فہمی کو جنم دینے والے ان مفروضوں سے دامن چھڑا کر آگے بڑھیں جو لمحاتی تدبیر سازی کو جامع حکمت عملی سے الجھا دیتے ہیں۔ اس کے بجائے ہمیں ان رہنما اصولوں پر بحث کرنا ہوگی جو ہماری انسداد دہشت گردی پالیسی کی اساس ہو۔ ہماری اس پالیسی کا محور یقیناً ملک کے مستقبل اور عالمی برادری میں اس کے مقام سے منسلک ہے۔ ہمارا ایسے اصولوں پر متفق ہونا ناگزیر ہے جو ہماری دفاعی، قومی سلامتی، اور خارجہ پالیسی کیلئے رہنما حیثیت کے حامل ہوں۔ ان پالیسیوں میں مطابقت ایک ایسی انسداد دہشت پالیسی کی مضبوط بنیاد فراہم کرے گی جو تضاد اور منافقت سے پاک ہو۔
ہمیں اداروں کا ایک ایسا مربوط نظام مرتب کرنا ہوگا جو فہم و دانش سے قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی وضع کرے۔ پھر ہمیں ان پالیسیوں کے نفاذ کیلئے ریاستی استعداد میں موثر اضافہ کرنا ہوگا۔ ایک مرتبہ اس تصور پر ہم اتفاق کرلیں، پالیسی کے رہنما اصولوں اور اس کیلئے درکار اداراتی ڈھانچے پر ہم خیال ہوجائیں، تو پھر ہم یقیناً ایسی حکمت عملی ترتیب دے سکیں گے“ جو اس پالیسی کے موثر نفاذ کی راہ آسان کردے۔ پھر ہم دہشت گردوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہیں یا نہیں، اس کا دار و مدار حکمت عملی کے خدوخال پر ہوگا۔ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہماری انسداد دہشت گردی پالیسی کی کامیابی کیلئے اہم ہیں، تویہ گفت و شنید ضرور ہونی چاہئے لیکن اگر اس بات چیت سے پالیسی کے رہنما اصول نظر انداز ہوتے ہیں تو مذاکرات کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔سب سے پہلے اس بنیادی تصور پر نظر ڈالتے ہیں جو اس پالیسی کا محرک بنتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر فیصلہ بطور ایک قومی ریاست ہوگا جس کا فرض اپنے شہریوں کی فلاح کی ضمانت ہے نہ کہ امہ کے مسائل میں ہمہ وقت الجھے رہنا۔ ایک ایسے منصفانہ عالمی نظام کیلئے جو اجتماعی مسلم شعور کی آواز ہے، نہ تو ریاست کو براہ راست دنیا کی مقتدر قوتوں سے ٹکرانا چاہئے، نہ ہی خفیہ طور پر مذہبی نظریات اور تشدد غیر ریاستی عناصر کے ذریعے دوسری ریاستوں میں برآمدکرنا چاہئیں۔ اگر ہمارا یہ ماننا ہے کہ بطور ایک قوم اور ریاست ہمارے پاس بے پناہ صلاحیت ہے تو ہمیں پہلے اسے پروان چڑھانا ہوگا، اس توانائی کو سمت دینا ہوگی، پھر ہم عالمی سطح پر اپنے کردار کو موثر حیثیت میں منوا پائیں گے۔
ریاست کا دو حوالوں سے سیکولر ہونا ضروری ہے۔ اول، اسے کامیابی کا تعین مادی و دنیاوی لحاظ سے کرنا چاہئے، یعنی اس کی معیشت کی مضبوطی اور اس کے شہریوں کی ترقی و فلاح۔ یہ معیار کوئی مہمل اخلاقی و روحانی معیار نہ ہونا چاہئے۔ دوم، ریاستی سطح پر نہ تو کسی مذہبی نظرئیے کو ترجیح دی جائے اور نہ ہی مذہب کی کسی تعبیر و تشریح کو معاشرے پر بزور نافذ کیا جائے۔ سیکولر ریاست وہ نہیں جو خدا کے تصور کی انکاری ہو یا لادینیت کو مذہب کے مقابلے میں فوقیت دے۔ یہ شہریوں کو اپنے مذہبی عقائد کے تحت زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہوکر دراصل مذہب کی خدمت سر انجام دے سکتی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے عقائد و نظریات میں نہ تو دخل اندازی کرے اور نہ ہی ایک نظرئیے کو دوسرے پر فوقیت دے۔پاکستان کی شناخت ان خصوصیات اور صلاحیتوں کی بناء پر ہونا چاہئے جن کیلئے بیرون ملک پاکستانی جانے جاتے ہیں یعنی محنت و سخت کوشی، فہم و ادراک اور مستقل مزاجی۔ بطور ریاست دنیا سے مذاکرات بے سود ہیں جب ہم خودکشی پر آمادہ ہوں۔ ہمیں بار بار خود کو یہ باور کروانے سے باز رہنا ہوگا کہ ہم اتنے اہم اور طاقتور ہیں کہ ہماری ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں اس مفروضے سے بھی دامن چھڑانا ہوگا کہ یہ دنیا کے مفاد میں ہے کہ 18کروڑ آبادی پر مشتمل ایک ایٹمی طاقت کی مدد لازماً کی جائے جسے اندرونی طور پر مذہبی شدت پسندی کا خطرہ درپیش ہے۔ ہمیں اپنے مثبت پہلوؤں کے باعث دنیا کی توجہ حاصل کرنا ہے نہ کہ منفی رجحانات کی بنا پر ہمیں ایک ایسا ملک بننا ہے جس کا پاسپورٹ سہولت کا باعث ہو نہ کہ مشکوک اور اذیت کا۔ہمیں خطے میں ایک ایسا ملک بننا ہے جو اپنے ہمسایوں سے خیرسگالی کا خواہاں ہو۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ہم کشمیر پر اپنے موقف سے دستبردار ہوں۔ بھارت سے پانی کی تقسیم پر غیر ضروری لچک کا مظاہرہ کریں، یا پھر ڈیورنڈ لائن پر افغانستان کا استدلال تسلیم کرلیں۔ ہمیں انتہائی تدبر سے اپنے مفادات کے حصول کی جانب بڑھنا ہوگا، لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہم ان اصولوں کا پاس کریں جو عالمی قوانین ہم پر لاگو کرتے ہیں اور جو موجودہ دور میں قومی ریاست کے تصور کی بقاء کے ضامن ہیں۔ اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ بھارت کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے اور جنگ کے ذریعے تنازعات کا حل ممکن نہیں تو ہمیں طاقت کے نئے ممکنہ ذرائع پر توجہ دینا ہوگی۔ لیکن غیر ریاستی عناصر کے ذریعے بھارت کے باسیوں کو دہشت میں مبتلا کرنا یقیناً مسئلے کا حل نہیں۔اگر ہمارا یہ ماننا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا نظریہ اور مخصوص تصور تباہ کن اور پسماندہ ہے اور پاکستان کے مستقبل میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں، تو ہمیں سرحد پار اسی نظریے کی حمایت پاکستانی اور افغان طالبان کے گمراہ کن امتیاز سے نہیں کرنی چاہئے۔ اگر افغانستان کے ساتھ ہماری ایک طویل اور غیر محفوظ سرحد ہے تو یہ یقیناً ہمارے مفاد میں ہے کہ افغان حکومت سے ہمارے تعلقات دوستانہ ہوں اور اس اثر و رسوخ کی بنا پر ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ لیکن کیا اس مقصد کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر گھڑی کابل میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کی کوشش میں ملوث رہیں؟
ہمیں ایک ایسا ملک بننا ہوگا جس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اصولوں پر ہو، جس میں ہماری خودساختہ اخلاقی اقدار کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ اگر ہم امریکہ کے مائی باپ کا کردار سے متنفر ہی تو کیا افغانستان کے ساتھ ہمارا کم و بیش یہی رویہ حق بجانب ہے؟ کیا ہم امریکہ کو جو نصیحت کرتے ہیں اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے خود تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی مغربی سرحد پر کسی دشمن حکومت کے خطرے کے سدباب کیلئے افغانستان میں موجود تمام سیاسی اور لسانی گروہوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کرسکتے؟ اور کیا اس حوالے سے افغانستان کے ساتھ ہمارا تعلق ویسا نہیں ہوسکتا جیسا ترکی کا ہم سے ہے؟ ایک لمحے کیلئے افغانستان کے اس اعصابی خلل کو بھول جائیے جس کے باعث افعانستان میں ہونے والے ہر واقعے کا الزام آئی ایس آئی کودیا جاتا ہے (آخر ہم بھی تو اپنے ہاں ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار سی آئی اے کو ٹھہراتے ہیں) سوال یہ ہے کہ کیا ہماری افغان پالیسی پاکستانی ریاست اور اس کے شہریوں کے مفادات کے حصول میں بہتری کا باعث بنی ہے؟ (Strategic depth) کا حصول تو ایک طرف، اس پالیسی کے باعث فاٹا کا کنٹرول بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ ہم مہاجرین کے مسئلے سے دوچار ہیں، ہتھیاروں اور منشیات کا معاملہ درپیش ہے، دہشت گردی کا منظم نیٹ ورک بے دھڑک تشدد آمیز کارروائیاں کررہا ہے اور معاشرہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی زد میں ہے۔ کیا ہمیں افغانستان کی جانب ایک ایسی غلط اور مہلک پالیسی جاری رکھنا چاہئے جس سے آج ریاست کا دفاعی نظام مزید خطرے سے دوچار ہوگیا ہے، اور جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے پر کاری ضرب لگائی ہے؟
آئیے ایک ایسا ملک بننے کی کوشش کریں جہاں قومی مفاد ریاست کے زیادہ سے زیادہ شہریوں کے مفادات سے منسلک ہو (یقینی طور پر اس میں ہر فرد کے ان بنیادی حقوق کا تحفظ لازم ہے جو اسے آئین نے تفویض کئے ہیں) آئیے وہ ملک بنیں جہاں قومی سلامتی کا مطلب شہریوں کی طبعی، معاشی، معاشرتی اور غذائی ضروریات کا حصول اور اس میں ہر ممکن ترقی ہو۔ قومی مفاد اور قومی سلامتی کا یہ تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری موجودہ دفاعی اور خارجہ پالیسی کو فائدے اور نقصان کے پیمانے پر جانچا جائے اور ازسرنو مرتب کیا جائے۔ ہمیں ریاستی مفادات کے ہوائی تصورات سے پیچھا چھڑا کر انہیں معاشرے کے ٹھوس مفادات سے بدلنا ہوگا۔
جب بات معاشرے کی اجتماعی ترجیحات اور فرد کے حقوق میں توازن کی ہو تو پاکستان ایک ایسا ملک ہونا چاہئے جس کا جھکاؤ شخصی حقوق کے تحفظ پر ہو۔ دہشت گردی کے تناظر میں اس کے دو اہم حوالے ہیں اول، ریاست فرد کے اس حق کے تحفظ کی ضامن ہو جس کے تحت وہ اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق بلاخوف و خطر زندگی گزار سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو ایسے گروہوں سے بھی آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہوگا جو خود تو دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث نہیں لیکن مذہب کے نام پر نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر تعصب پھیلاتے ہیں اور نوجوان ذہنوں کو متاثر کرکے دہشت گرد تنظیموں کو خام مال فراہم کرتے ہیں۔
دوم، ریاست کو قانون کی حکمرانی کا مظہر ہونا چاہئے، بنیادی حقوق کا پاس اس موقع پر بھی رکھنا چاہئے جب اس کا واسطہ ایسے سنگین دہشت گردوں سے ہو جنہیں دوسروں کے حقوق کی قطعاً پروا نہیں۔ ریاستی طاقت اور دہشت گردوں کی طاقت میں تمیز اور فرق ایسے ممکن ہے کہ ریاستی طاقت اور دہشت گردوں کی طاقت میں تمیز اور فرق ایسے ممکن ہے کہ ریاستی طاقت کا سر چشمہ قانون ہے اور قانون جنم لیتا ہے ان اخلاقی اقدار سے جن کا مطمع نظر انصاف ہے۔ چنانچہ ریاست خواہ کیسے ہی سنگدل یا درندہ صفت دہشت گردوں کے مقابل ہو، وہ ان جیسا پست اور وحشیانہ طریقہ کار اختیار نہیں کرسکتی۔
ہماری انسداد دہشت گردی پالیسی کے اصولوں اور حکمت عملی کا تعین ریاست کے کردار اور ساخت کے حوالے سے ہمارے اجتماعی تصور میں مضمر ہے اور یہ کہ ہم اس تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
تازہ ترین