• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی اپنی جب اس مشکل سے گزری غالب#!
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب کا یہ شعر آج کل ہر لوڈشیڈنگ زدہ پاکستانی کے حسب حال ہے۔ رمضان میں لوڈشیڈنگ سحر اور افطار کے وقت نہ کرنے کے تمام وعدے ہوا ہوگئے پریشان حال لوگ کبھی خود کو اور کبھی اپنے گھر کی بجلی کو دیکھتے ہیں۔ حکمران اگرچہ بجلی کے حصول کے لئے چین تک کا سفر کر آئے اور بظاہر ان کے دورے اخباری بیانات اور تجزیوں کے مطابق کافی حد تک کامیاب بھی نظر آرہے ہیں مگر بجلی تو ایسی چیز ہے کہ خود نظر آتی ہے اور جب نہ ہو تو گرمی کے ساتھ ساتھ اندھیرا بھی ہوتا ہے۔ اندھیرے میں اگرچہ اندھوں کو بہت دور کی سوجھتی ہے مگر آنکھوں والوں کا کیا کریں جنہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ حکومتی سطح پر سستی بجلی کی پیداوار کے لئے کافی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اب تاجروں اور صنعتکاروں کو چاہئے کہ وہ اس موقع پر فائدہ اٹھائیں اور سستی بجلی پیدا کرنے چھوٹے چھوٹے انگنت پلانٹ لگائیں۔ اگر ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بناسکتے تو نہ سہی۔ چھوٹے چھوٹے سیکڑوں ڈیم بنا ڈالیں اور اس طرح ہر سال آنے والے سیلابوں کے پانی کا ذخیرہ کرکے اسے بجلی بنانے کے لئے استعمال کریں۔
یہ باتیں اگر میری سمجھ میں آرہی ہیں تو حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آرہی ہوں گی۔ اللہ کرے کوئی چیز تو قابل عمل ہوجائے۔ آپ یقین کریں اتنے برے حالات کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ مجھے اپنی عوام اور اس کی صلاحیتوں پر بہت بھروسہ ہے مگر افسوس کہ عوام کو صحیح سمت میں چلانے والے حکمرانوں کا فقدان ہے۔ موجودہ حکومت کو تو ابھی 60دن بھی نہیں ہوئے اس لئے فی الحال ان کی کارکردگی پر کوئی تبصرہ قبل ازوقت ہوجائے گا مگر اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ ڈالر 102 روپے کا ہوگیا ہے اقتصادی پالیسیاں کچھ رنگ لاتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہیں۔ صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ہر چیز گھٹ رہی ہے بقول مرزا غالب#
جب میں کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو کہتی ہے اجل
مر بھی چُک اب کہیں اور روز کے مرنے والے
مرنے سے یاد آیا کہ کراچی میں غریب ٹیکسی ڈرائیور کا رینجرز کے ہاتھوں بہیمانہ قتل وہ بھی اس کے معصوم بچے کی موجودگی میں۔ اکٹھی پانچ گولیاں۔ کس کو فتح کررہے تھے یہ جوان۔ سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی۔ ڈائریکٹر رینجرز نے فوری طور پر ایف آئی آر کروا کر متعلقہ لوگوں کو گرفتار کروایا۔ مگر کیا اس گرفتاری سے وہ غریب جو بے گناہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا وہ واپس آجائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب قانون کے پاس بھی نہیں۔ بھتہ اور پرچی والے تو شہر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اپنے بچے کے ساتھ ٹیکسی میں جانے والا ڈرائیور پانچ گولیوں کا مستحق پاتا ہے۔ یہ کیسا لا اینڈ آرڈر ہے اور یہ کس قسم کی ٹریننگ ہے۔ شکر ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے اس واقعہ کا سوموٹو نوٹس لے لیا ہے۔ مگر بات گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتی ہے کہ کیا ان ایکشنوں سے دنیا سے بے گناہ رخصت ہونے والا واپس آجائے گا۔ میں نے اس کی بیوہ کی گفتگو ٹیلیوژن پر سنی اور دیکھی۔ میرا دکھ اور بڑھ گیا۔ غریب کی بیوہ اپنے سہاگ کے لئے تو پریشان تھی ہی مگر وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ اب ہمارا کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ لوگ جو زندگی کا چراغ ایک ہی پھونک سے بجھا دیتے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ ہمارے معاشرے میں ایک غریب آدمی اپنے پورے گھرانے کے لئے روزی کما رہا ہوتا ہے اور جب اس کی زندگی کا چراغ گل ہوتا ہے تو مفلسی کے سائے اس غریب گھر میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور پھر ساحر لدھیانوی کی طویل نظر ”پرچھائیاں“ کے اشعار خودبخود زبان پر آجاتے ہیں۔
ہل بیل بکے کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں
سب جینے کے ساماں بکے
کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو
جسموں کی تجارت ہونے لگی
خلوت میں بھی جو ممنوع تھی وہ
جلوت میں جسارت ہونے لگی
خدا ہمیں ایسے حالات سے ہمیشہ محفوظ رکھے مگر یہ زندگی کی تلخ حقیقتیں ہیں اور ان سے منہ موڑ کر ہم زندہ نہیں رہ سکتے ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ سمجھ لیں کہ بلی چلی گئی ہے تو پھر کبوتر والا حال ہوجاتا ہے۔ میرے دوستو۔ آنکھیں کھولو۔ کچھ تو بولو۔ ظلم سہنا بھی جرم ہے۔ ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز اپنے ماتحتوں کو سمجھائیں گے کہ انہیں کس طرح ڈیوٹی کرنی ہے۔ ابھی ہم لیاری کے مکینوں کے مسائل تو حل کر نہیں سکے اور اپنے لئے نئے محاذ کھول رہے ہیں۔ لیاری کے وہ باشندے جو نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں اور اپنے ہی دیس میں ہجرت کا سفر کررہے ہیں ان کی مایوسی اور خوف کا عالم قابل دید ہے۔ حکومت کے اخباری بیانات ان کے دکھوں کا مداوا نہیں۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جو لوگ کراچی سے ٹھٹھہ ہجرت کرکے گئے تھے ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے۔ اس پر حسن نقوی کا شعر یاد آیا
کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسن تم بھی گھر جایا کرو
مگر ان کی پریشانی دیدنی ہے جن کا اب کوئی گھر ہی نہیں اور گھر بار کے ہوتے ہوئے وہ دربدر ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ رینجرز کے جوان ٹیکسی ڈرائیوروں کو مارنے کی بجائے نقل مکانی کرنے والوں کو سکون اور جان و مال کا تحفظ فراہم کریں گے اور اپنی ترجیحات میں تبدیلی لائیں گے۔ عید کی آمد پر ابھی سے سرکاری دفاتر میں نچلے درجے کے ملازمین نے عیدی مانگنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اب خدا جانے یہ مجبوری ہے یا لالچ؟ مجبوری اورحرص کے درمیان بڑی باریک لائن ہوتی ہے اور اسے پہچاننا بڑا مشکل کام ہے۔ بہرحال یہ مہینہ بھی گزر جائے گا۔ اگر ہم 65برس میں نہیں سدھرے تو اس ایک مہینے میں کیا سدھر جائیں گے؟ میرا یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد کسی پر بے جا تنقید کرنا نہیں ہے صرف خود اپنے آڈٹ کرنا ہے کہ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں اور ابھی ہمیں کیا کیا کرنا ہے۔ ہم تمام امیدیں حکومت سے وابستہ کرلیتے ہیں یہ ہماری نادانی ہے۔ اب ہمیں بطور سوسائٹی خود اپنا محاسبہ کرنا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے کام جو بغیر کسی بجٹ اور خرچ کے ہم کرسکتے ہیں انہیں سرانجام دینا ہے۔ ایک قومی سوچ کو بڑھانا ہے یہ سفر پہلے قدم سے شروع کریں منزل خود بخود نزدیک آجائے گی۔ ذرا کرکے تو دیکھیں! آخر میں فیض احمد فیض کا شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
تازہ ترین