• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے خلاف چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ اور خیبرپختونخوا کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ 18 ویں ترمیم اور وفاقیت (فیڈرل ازم ) کو رول بیک کرنے اور ملک میں ایک بار پھر ون یونٹ مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہئے کہ وہ ان شکایات اور الزامات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ان کے ازالے کے لئے اقدامات کرے ۔ اگر ابتدائی مرحلے پر ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف سیاسی تصادم کی فضا پیدا ہوسکتی ہے بلکہ جمہوریت اور وفاق کے لئے بھی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
صوبوں کی شکایات ایسی نہیں ہیں کہ انہیں یکسر نظر انداز کردیا جائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سینیٹر میاں رضا ربانی نے وفاقی حکومت پر آئین کی 18 ویں ترمیم کی خلاف ورزی کے جو الزامات عائد کئے ہیں ان میں بھی کسی حد تک وزن ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ پنجاب کی پارٹی ہے ۔ اگر صوبوں کی شکایات اور پیپلز پارٹی کے تحفظات پر توجہ نہ دی گئی تو اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی۔ سب سے پہلے سندھ کی شکایات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سندھ کی سب سے بڑی شکایت یہ سامنے آرہی ہے کہ کراچی میں امن وامان کے حوالے سے وفاقی حکومت نے مداخلت شروع کردی ہے اور وفاقی حکومت اپنے طور پر جو اقدامات کررہی ہے، ان پر صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔ اگرچہ سندھ حکومت کی طرف سے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا گیا ہے لیکن الفاظ کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو کے دورہ کراچی اور لیاری میں کچھ مخصوص لوگوں سے ان کی ملاقاتوں پر سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے رہنماوٴں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی ٹیم نے ان سے ملاقات بھی نہیں کی اور انہیں کوئی رپورٹ بھی نہیں دی ۔ حالانکہ سندھ کے محکمہ داخلہ کا قلمدان وزیر اعلیٰ کے پاس ہے۔ سندھ حکومت کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ وفاقی حکومت چیف سیکرٹری ، آئی جی اور ڈی جی رینجرز سندھ کو براہ راست احکامات دے رہی ہے اور سندھ حکومت کو ان سے بے خبر رکھاجارہا ہے۔ سندھ حکومت کی بار بار دعوت کے باوجود وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی آکر صوبائی حکومت کے ذمہ داروں سے امن وامان کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی مشاورت نہیں کی۔ سندھ حکومت کے بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امن وامان کے معاملات میں وفاقی مداخلت غیر آئینی ہے کیونکہ امن وامان کاقیام صوبوں کی ذمہ داری ہے ۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہ دینے پر سندھ سے بدلہ لیا جارہا ہے اور نئی وفاقی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ سندھ حکومت نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوئی ناردرن گیس کمپنی کو90 ہزار کے بجائے ایک لاکھ کیوبک فٹ گیس فراہم کرے ۔ اس وجہ سے سندھ میں گیس کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے اور آئین کے آرٹیکل158 کے تحت سندھ کو اس کے حصے کی گیس نہیں مل رہی ہے۔ حالانکہ ملک کی مجموعی گیس کی پیداوار میں 70 فیصد حصہ سندھ کا ہے۔ سندھ حکومت نے اس بات پر بھی احتجاج کیا ہے کہ نوری آباد میں 50,50 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس لگانے کے لئے وفاقی حکومت این او سی جاری نہیں کررہی ہے حالانکہ یہ پلانٹس سندھ کی گیس پر ہی چلیں گے۔ سندھ اسمبلی ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرچکی ہے ، جس میں بعض خدمات (سروسز) پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ قرارداد کے مطابق خدمات پر سیلز ٹیکس صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے اور مذکورہ ڈیوٹی اس ٹیکس پر ڈاکہ ہے ۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے پروہاں کی حکومت سراپا احتجاج ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سینیٹر میاں رضا ربانی کے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر الزامات کو بھی آسانی سے مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ان کی یہ بات غیر منطقی نہیں ہے کہ وفاقی حکومت نے جس انرجی پالیسی کا اعلان کیا ہے ، اس پر صوبوں کو اعتمادمیں لیاجاناچاہئے تھا اور اس پالیسی کی مشترکہ مفادات کی کونسل ( سی سی آئی) سے منظوری لی جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا جو کہ ان کے بقول آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ہائیڈرو پاور خیبرپختونخوا میں ہے اور تیل وگیس سندھ اور بلوچستان میں ہیں۔ بعض خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بھی انہوں نے صوبائی خودمختاری اور 18 ویں آئینی ترمیم کی رو کے منافی قرار دیا ہے ۔ جب خدمات پر سیلز ٹیکس صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے توپھر ان خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ڈی جی، آئی ایس آئی نے ملک میں امن وامان کی صورتحال پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو بریفنگ دی۔ اس بریفنگ میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف موجود تھے لیکن باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجود نہیں تھے۔ اگر سینیٹر میاں رضا ربانی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے تو وہ بلاجواز نہیں ہے ۔ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ امن وامان کا مسئلہ سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں زیادہ ہے ۔ ان کی یہ شکایت بھی درست لگتی ہے کہ وزیر اعظم کے بیرونی دوروں میں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، جس میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو وزیراعظم ساتھ لے گئے لیکن سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو نظر انداز کیا گیا ۔ حالانکہ چین میں جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان میں سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کا موجود ہونا بھی ضروری تھا۔ دوسری طرف چھوٹے صوبوں سے یہ آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت انہیں ان کے حصے کی رقم نہیں مل رہی ہے اور انہیں اپنے روزمرہ کے اخراجات چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما سردار ممتاز علی بھٹو کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ اگر سندھ میں گورنر راج نافذ کیا جائے تو بلاجواز نہیں ہوگا۔ اس سے نہ صرف سندھ میں بلکہ پورے ملک میں وفاقیت اور صوبائی خودمختاری پر یقین رکھنے والے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
پاکستان کو اس وقت جن داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے ، ان میں کسی قسم کا تصادم نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کے لئے خطرناک ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ پنجاب کی پارٹی ہے اور پنجاب صوبائی خودمختاری کا مخالف ہے ۔ اگر چھوٹے صوبوں کی عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ وفاقی حکومت 18 ویں آئینی ترمیم کی رو کے مطابق اہم قومی معاملات میں صوبوں کو اعتماد میں لے اور تمام اقدامات آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے جائیں۔ ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ باورکرانا ہوگا کہ وہ بھی پیپلزپارٹی کی طرح وفاقیت اور مفاہمتی سیاست کی حامی ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کیا گیا اور مفاہمت کے بجائے تصادم کا راستہ اختیارکیا گیا تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
تازہ ترین