• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدشہ ہے کہ حالیہ دنوں عدلیہ کی طرف سے کئی ایک معاملات میں کی گئی مداخلت ریاست اور پاکستانی معاشرے پر دوررس نتائج مرتب کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے اور اس کو جلد از جلد نمٹانے کا حکم دیا ہے۔ اصولی طور پر تو اس طرح کے بڑے اور اہم فیصلے کرنا پارلیمینٹ اور اس کی ماتحت انتظامیہ کا حق ہونا چاہئے لیکن اب قابل ِ غورنکتہ یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ ایسے معاملات پر حکومت کو مجبو رکر سکتی ہے؟
آئینی طور پر پارلیمینٹ قانون سازی کرتی ہے اور وزیراعظم اورحکومت ان قوانین پر عملدرآمد یقینی بناتے ہیں۔ اگرکسی کو سزا دینی ہے تو قانون پارلیمینٹ بنائے گی، وزیر ِ اعظم انتظامیہ کو متحرک کرے گا اور عدالتیں ملزم کی سزا یا بریت کا فیصلہ کریں گی۔ تاہم پرویز مشرف کے کیس کو چار عوامل نے بے حد پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کیس کو اس حوالے سے دیکھا جائے گا کہ سپریم کورٹ ایسے شخص کو سزا دینے جارہی ہے جو ماضی میں اس پر اثر انداز ہونے کا مرتکب ہوا تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ حکومت کے مفاد میں ہے کہ وہ مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کو عدم استحکام کا شکار نہ ہونے دے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کیس سے تاثر یہ جارہا ہے کہ سپریم کورٹ صرف ایک شخص ،نہ کہ فوجی ہائی کمان ، جو باہم مشاور ت سے فیصلے کرتی ہے اور ان پر عمل کرتی ہے، کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی ساری توجہ اکتوبر 1999ء کے بجائے تین نومبر 2007ء کے اقدامات پر دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ کی طرف سے ایسے سیاسی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مداخلت اس طرح کی جاتی تھی کہ کسی خاص حوالے پر حکومت کو رولنگ دے دی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ستّر کی دہائی میں بھٹو حکومت نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف ”غداری“ کے معروضات کو طے کیا جائے کیونکہ وہ اس پر پابندی لگانا چاہتی تھی۔
روایتی طور پر حکومت کا حق رہا ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جائے، اس کی سفارشات کو اسی دن سے نافذ العمل سمجھا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس استحقاق کو چیلنج کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسے نافذ کرنے سے پہلے پارلیمینٹ میں بحث کے بعد منظور کرے۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے 1931ء کے ایکٹ کو بلڈوز کر دیا ہے ۔ اس ایکٹ کے مطابق پارلیمینٹ عارضی بنیادیوں پر فوری طور پر ٹیکس وصول کرنے کا حق حکومت کو سونپتی ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں یہ روایت مستعمل ہے اور اس پر کسی ادارے کو بھی اعتراض نہیں ہوا ہے۔ اس کا مقصد اُن منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو کسی قانون کے اعلان اور اس کی منظوری کے درمیان وقفے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں حالیہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے محصولات میں کمی کی وجہ سے خزانے کو دس بلین روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ بجٹ میں سفارش کردہ اُونچی درآمدی ڈیوٹی کو کم کرکے پرانی ڈیوٹی کو نافذ کرنے سے ہونے والا نقصان اس کے سوا ہے۔ اگر نظر ِ ثانی کی اپیل میں اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو حکومت کی معیشت کے حوالے سے عملداری کو آئندہ بھی چیلنج کیا جاتا رہے گا اور اس کے بین الااقوامی معاہدوں کو بھی زک پہنچے گی۔
اب سپریم کورٹ آرمی ایکٹ 1952ء کا جائزہ لینے جارہی ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق ہائی کورٹ فوجیوں اور شہریوں ، جو اس ایکٹ کے دائرے میں آتے ہیں، کے کیسز کی سماعت کی مجاز نہیں ہیں۔اگر کسی شہری یا فوجی کو فوج نے اس ایکٹ کے تحت قید کیا ہو تو جو بھی کیس ہو، ہائی کورٹ اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح کسی ملزم فوجی کو پولیس حراست میں نہیں رکھ سکتی بلکہ گرفتار کرنے کے فوراً بعد اسے فوج کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی ایسے کیسز کی سماعت تب کر سکتی ہے جب یہ ”عوامی اہمیت “ کے ہوں اور ان میں بنیادی انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو۔ یہ معاملہ کھولتے ہوئے آتش فشاں کی طرح ہے کیونکہ بلوچستان کے ”گم شدہ“ افراد کا معاملہ عوامی اہمیت کے زمرے میں آتا ہے تاہم جب سے مسلح گروہوں، علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک بھر میں کارروائیاں کرنا شروع کی ہیں، یہ معاملہ خاصا گمبھیر ہو چکا ہے کیونکہ سپریم کورٹ ایسے عناصر کو انسانی حقوق اور عوامی اہمیت کی نظر سے دیکھتی ہے جبکہ فوج ان کو ریاست مخالف عناصر قرار دے کر ان کو کچلنے کے لئے تمام تر ریاستی وسائل کا استعمال روا سمجھتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس آرمی ایکٹ کو نرم کر دیا جائے تو اس سے دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کا راستہ کھل جائے گا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو پھر خدشہ ہے کہ سیاسی بنیادوں پر بے گناہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ سرکاری افسران، پیشہ ور ماہرین اور مشیران کی ملازمت اور ان کے تبادلوں پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دراصل عدلیہ کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے کہ حکومت اچھی ساکھ والے غیر جانبدار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرے جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ اعلیٰ اسامیوں پر اہل افراد کو بھرتی کیا گیا یا نہیں۔ اگر اسے بادی النظر دیکھا جائے تو سیاسی حکومتوں کی طر ف سے روا رکھی جانے والی اقربا پروری اور بدعنوانی کو روکنے کا ایک اچھا عمل ہے لیکن دراصل اسے ایگزیکٹو کے کاموں میں مداخلت سمجھا جائے گاکیونکہ سیاسی ضروریات کی بنا پر ایسے فیصلے کرنا اس کا استحقاق ہوتا ہے۔ ماضی میں ایگزیکٹوز من مانی کرتے تھے اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ عوامی مفادات اور حکومتی مفادات کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ اسی طرح قانون سازوں اور قانون کی تشریح کرنے والوں کو بھی ایک توازن اور ضبط کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین