• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے ملالہ ایسے ہی عزیز ہے جیسے میری ڈھائی سالہ لخت جگر اور نور نظر عشل خان ‘کیوں نہ ہو بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ بیٹیاں ماں کا درجہ نہیں لے سکتیں اس لئے میں کشمکش اور گومگو کی کیفیت میں رہا‘ ایک طرف پری چہرہ معصوم بیٹی اور دوسری طرف دھرتی ماں… ملالہ کی سولہویں سالگرہ پر اقوام متحدہ نے ملالہ ڈے منانے کا اعلان کیا اور یوسف زئی قبیلے کی اس بچی کو اقوام متحدہ میں خطاب کا اعزاز حاصل ہوا تو میں خوشی سے جھوم اُٹھا‘ دل چاہا اُٹھ کر تالیاں بجاوٴں‘ اُس کی قسمت پر ناز کروں اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاوٴں مگر میں یہ نہیں کر پایا کیونکہ شاکرہ کا خیال آتے ہی خوشیوں سے نہال مزاج پر غموں کا ملال چھا گیا آپ بھی کچھ آنسو‘ کچھ ہمدردی‘ کچھ دعائیں‘ تھوڑی سی محبتیں اور پیار کے چند بول ان ملالاوٴں کیلئے بچا رکھیں جو ملالہ جیسی تقدیر لے کر پیدا نہیں ہوئیں۔ 6 سالہ شاکرہ کا جھلسا ہوا چہرہ آپ سب نے فیس بک پر ضرور دیکھا ہوگا جو ایک سال کی عمر میں ہی درندگی کا نشانہ بن گئی۔ اسے میڈیکل ریلیف ٹیم نے ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے گھر کے ملبے سے نکالا تو خون کا لوتھڑا تھی ملالہ کی طرح اسے جی ایچ کیو تو نہ لے جایا جا سکا اور نہ ہی ابوظبی سے ایئربس لینے آئی مگر فرشتہ بن کرآنے والے ڈاکٹر اس شیر خوار بچی کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ پانچ سال کی تگ و تاز کے بعد آج شاکرہ بچ تو گئی ہے مگر زندہ نہیں رہی‘ چہرے کے خال و خد کھو چکی ہے اور اس کے جھلسے ہوئے چہرے پر کوئی شرمین عبید چنائے ڈاکومینٹری بنانے بھی نہیں آئے گی کیونکہ اس کے چہرے پر کسی جنونی نے تیزاب تھوڑی پھینکا ہے وہ تو ڈرون حملے میں جھلسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاکرہ گل مکئی نہ بن سکی۔ ملالہ کو طالبان گرل قرار دینے والا مغربی میڈیا شاکرہ کو ڈرون گرل کا خطاب نہ دے پایا اور ہم بھی اس بد قسمت بچی کو قوم کی بیٹی کا اعزاز نہ دے پائے حالانکہ بیٹیاں تو ایک جیسی ہوتی ہیں‘ پھر ملالہ اور شاکرہ میں یہ تفاوت کیوں؟
شاکرہ تو زندہ بچ گئی مگر کئی ”ملالائیں“ تاریک راہوں میں گمنامی کی موت ماری گئیں اور کہیں کوئی بھونچال نہ آیا۔ ایک امریکی ادارے کی رپورٹ بتاتی ہے بش کے دور میں پاکستان پر52 جبکہ اوباما کے دور میں 310 ڈرون حملے ہوئے جن میں891 بے گناہ عام شہری مارے گئے ۔لقمہٴ اجل بن جانے والوں میں ایک سال کی شاکرہ سے16سال کی ملالہ تک کی عمر کے 176 بچے بھی شامل تھے یہ 176 نو نہالان قوم تو اس لئے عالمی پذیرائی حاصل نہ کر سکے کہ سیلبرٹی بننے اور ڈارلنگ کا درجہ پانے کے لئے بچ جانا اور زندہ رہنا شرط ہے مگر ڈرون حملوں نے تو ان کے پرخچے اڑا دیئے ۔ایک ہزار کے لگ بھگ وہ بچے جو زندگی بھر کے لئے اپاہج اور معذور ہو گئے ‘کیا سوچتے ہوں گے؟ یہی کہ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے کے بجائے طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے تو انہیں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ 6 سالہ شاکرہ بھی سوچتی ہو گی کاش میں طالبان کے حملے میں زخمی ہوتی تاکہ Weidenfeld and Nicolson جیسا کوئی عالمی نشریاتی ادارہ کتاب لکھنے کے لئے 3 ملین ڈالر کی رائیلٹی دیتا۔ میڈونا جیسی آزاد خیال گلوکارہ اپنی کمر پر نام کندہ کراتی‘ شاکرہ ایجوکیشنل ٹرسٹ بنتی۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور ہلیری کلنٹن سمیت عالمی رہنما اس ٹرسٹ کے لئے ڈونیشن جمع کرتے پھرتے۔ نیوز ویک اور ٹائم میگزین کے سرورق پر میری تصویر شائع ہوتی‘ نوبل ایوارڈ کے لئے نامزد کیا جاتا‘ دنیا کی 100 بااثر ترین شخصیات میں نام آتا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے بام عروج پر جا پہنچتی…!!! مگر وہ کیا کرے اس کا نام ملالہ نہیں شاکرہ ہے اور اس پر حملے کا الزام طالبان نہیں امریکیوں پر ہے۔
دانش گردی کے بل بوتے پر اپنی رائے مسلط کرنے والے کہتے ہیں تم پاکستانی سازشی تھیوریوں کے اسیر ہو ہر بات میں ہیر پھیر تلاش کرتے ہو ورنہ یہ تو اعزاز کی بات ہے کہ ملالہ کی بدولت پاکستان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی ۔ نیلسن منڈیلا کے بعد ملالہ وہ دوسری شخصیت ہے جس کے یوم پیدائش کو اقوام متحدہ نے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ دو ملین بچوں نے اپنے دستخطوں سے ملالہ کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا۔ 30ممالک کے نامور گلوکاروں نے جس میں میڈونا بھی شامل ہے‘ اقوام متحدہ کی فرمائش پر ملالہ کے نام سے گانا کمپوز کیا… مگر تم رقابت‘ حسد اور انانیت کی آگ میں جلتے ہو۔ مجھ ایسا کوئی گستاخ شاکرہ جیسی معصوم ملالاوٴں کا ذکر کرتا ہے تو جواب ملتا ہے‘ کیسے احمق ہو، سب بچوں کا مقدر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ نازیوں کے خلاف جدوجہد تو بہت سے لوگوں نے کی مگر شہرت ایمسٹرڈم کے تہہ خانے میں چھپی اس11 سالہ یہودی بچی کو ملی جو ڈائریاں لکھتی تھی‘ کھیلتے تو سب کھلاڑی ہیں مگر ظاہر ہے ٹرافی صرف کپتان کو ملتی ہے… خامہ فرسائی کا اِذن ہو تو عرض کروں یہاں کس کا ہولوکاسٹ ہو رہا ہے؟ میں کسی سازشی تھیوری کی بات نہیں کرتا۔ آپ میرے چند سوالات کا جواب دے دیجئے۔ بھارتی شہر نئی دہلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے لڑکیاں چلتی بسوں میں گینگ ریپ کا نشانہ بنتی ہیں خود مغربی ممالک میں کیا کیا شیطانی کھیل نہیں کھیلے جاتے‘ فرانس کا ایک بد بخت گورا اپنی بیٹی کو 23 سال تک تہہ خانے میں چھپا کر رکھتا ہے اپنی جنسی ہوس پوری کرتا ہے اور اس دوران پانچ بچے جنم لیتے ہیں مگر کہیں کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوتی ہے تو دنیا بھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو اچھالنے والے ہمارے ”ہمدرد“ پاکستان کی نیک نامی چاہتے ہیں یا بد نامی؟ کون سا یورپی ملک ہے جہاں خواتین پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا اگر کوئی چاہے تو معتبر حوالوں کے ساتھ بیسیوں تمثیلات پیش کر سکتا ہوں مگر ان پر کوئی ڈاکو مینٹری فلم نہیں بنتی لیکن ”فیس سیونگ“ کو آسکر ایوارڈ مل جاتا ہے ‘کیوں؟ 84 ویں آسکر ایوارڈ تک 3000 سے زائد ایوارڈ یافتہ فنکاروں کی فہرست میں مجھے صرف 9 مسلمان ڈائریکٹر ملتے ہیں اور سب کے سب وہ جنہوں نے اپنے معاشرے‘ اپنی اقدار یا اسلام سے بغاوت کی۔ اصغر فرہادی A Seperation نامی فلم میں اسلام کے قوانین طلاق کا تمسخر اڑاتا ہے اور اعزاز پاتا ہے۔ ایک فلسطینی ڈائریکٹر فدائی حملوں کے خلاف فلم بناتا ہے تو آسکر ایوارڈ اس کی جھولی میں آ گرتا ہے، آخر کیوں؟ نوبل امن انعام ملتاہے تو شیریں عبادی جیسی متنازع خاتون کو‘عبدالستار ایدھی کسی قطار شمار میں نہیں۔ سلمان رشدی کو ”شیطانی آیات“ لکھنے پر اعزازات سے نوازا جاتا ہے مگر اشفاق حسین جیسے ادیبوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا‘ آخر کیوں؟ میں کسی سازشی تھیوری میں نہیں پڑتا‘ فرض کیا اسے طالبان نے ہی گولی ماری اورافواہوں کے برعکس یہ ٹوپی ڈرامہ نہیں ایک دلخراش واقعہ تھا‘ مگر کیا ملالہ وہ پہلی بچی تھی جو شدت پسندوں کی اس جارحیت کا نشانہ بنی ہے؟ اعزازات کی برسات ہونے لگی تو ملالہ کو عالمی مفکرین کی فہرست میں شامل کرنے کی انہونی بھی ہو گئی۔
ملالہ تو ہماری بیٹی ہے ‘ معصوم ہے مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں‘ شکوہ تو ان لبرلز سے ہے جنہوں نے ملالہ کو نظریاتی فٹبال بنا رکھا ہے افسوس تو ان گِدھوں پر ہے جو اس سادہ لوح اور کم سن بچی کی مظلومیت کو مرداروں کی طرح نوچ رہے ہیں مجھے تو ملالہ کی باتوں سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اسے پذیرائی بخشنے والوں کو اتفاق ہے تو عمل کر کے دکھائیں ملالہ نے کہا ”شدت پسند کتابوں سے ڈرتے ہیں۔ آوٴ قلم اور کتاب اٹھائیں کیونکہ یہ طاقتور ترین ہتھیار ہیں“ تو کیا اب امریکی ڈرونز کے بجائے قلم کتاب سے دہشت گردی کو مات دینے پر تیار ہیں؟ مجھے تو شاکرہ جیسی معصوم بچیوں کے لبوں پر ایک ہی حسرت بھرا جملہ مچلتا دکھائی دے رہا ہے ”اگلے جنم موہے ملالہ ہی کیجیو“۔
تازہ ترین