• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مر بوط سیکورٹی اور اسکریننگ کا عمل طے کرنے کے بعد میں کراچی کے اس اسپیشل سیکورٹی یونٹ کے ہیڈ کوارٹرمیں داخل ہوچکا تھا جہاں ایک الگ ہی دنیا میرے سامنے تھی ، چاروں طرف خوبصورت اور جاذبِ نظر در و دیوار جنھیں خوبصورت رنگوں اور فورس کے حوالے سے معلومات اور شہدا کی تصاویر کے ذریعے مزید جاذب نظربنادیا گیا تھا ، چاروں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خوبصورت اور جدید طرز کی عمارتیں جن سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں کسی سرکاری ادارے میں نہیں بلکہ کسی پوش علاقے میں موجود ہوں جہاں معروف آرکیٹیکٹ نے پورا علاقہ ڈیزائن کیا ہو ،چاروں طرف جدید قسم کی ڈبل کیبن گاڑیاں جو ایک ہدایت پر مشن پر جانے کے لئے تیارتھیں ، شاندار لگژری بسیں جن میں پورا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تھا پوری شان سے کھڑی تھیں، سیاہ رنگ کی جاذب نظر اور کلف لگی وردیوں میںملبوس چاق و چوبند کسرتی جسم والے کمانڈوز ہلکی دوڑ کے ساتھ اپنی اپنی مناز ل کی جانب رواں دواں تھے ،اس ادارے کے داخلی دروازے سے چند منٹ کی مسافت پر قائم ادارے یعنی اسپیشل سیکورٹی یونٹ کے خالق ڈی آئی جی سیکورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز کے دفتر تک پہنچنے کا یہ میرا مشاہد ہ ہی قارئین کو یہ باور کے لئے کافی ہوگا کہ میں اس وقت کراچی میں ایک بین الاقوامی معیار کی کمانڈو فورس کے ہیڈ کوارٹر میں موجود تھا ،اگلے چند منٹ بعد میں ڈی آئی جی سیکورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز مقصود احمد کے ساتھ تھا ، سرخ و سفید رنگت ، لمبا قد ،کسرتی جسم پھر کمانڈو کی تربیت مقصود احمد صاحب کی شخصیت پولیس کے شاندار یونیفارم میں کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں تھی لیکن فلموں میں تو ہیرو پولیس کی یونیفارم پہن کر صرف جان دینے کی اداکاری ہی کرتے ہیں لیکن یہاں ہمارے پولیس کمانڈوز جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں لہٰذا قوم کے اصلی ہیروز تو یہی ہیں، ڈی آئی جی سے گفتگو میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ تلخ سوالات بھی کرنے پڑے لیکن پھر بھی انہوں نے انتہائی تحمل سے جوابات کے ذریعے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی جس کے لئے میں ان کا شکرگزار بھی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو ہزار دس میں چند سو افراد پر مشتمل اس کمانڈو یونٹ نے گیارہ سال کے عرصے میں اپنی تعداد اور استعداد میں شاندار اضافہ کیا ہے ، جو اب مجموعی طورپر پانچ ہزار افسروں و اہلکاروں تک پہنچ چکی ہے جس میں ڈھائی ہزار آپریشنل کمانڈوز ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کسی بھی ایمرجنسی سروس کے لئے تیار رہتے ہیں جبکہ ڈھائی ہزار کمانڈو کراچی کے عوام کے تحفظ کے لئے ایمرجنسی رسپانس کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے ۔عوام کے لئے یہ بھی اطلاع ہے کہ ماضی میں صدر اور وزیر اعظم کی سیکورٹی کے لئے پاک فوج کو اپنے کمانڈوز بھجوانے پڑتے تھے تاہم اب یہ تمام ذمہ داریاں ایس ایس یو نے سنبھال لی ، غیر ملکی کرکٹ ٹیم کی سیکورٹی بھی ایس ایس یو کے کمانڈوز نے سنبھال لی ، اس ادارے میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین کمانڈوز بھی خدمات انجام دے رہی ہیں ،یہاں تمام اہلکاروں کوتین وقت کا بہترین معیار کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے جسے ڈی آئی جی سے لے کر عام کانسٹیبل تک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں ، یہاں دنیا کا جدید ترین اسلحہ موجود ہے جو شاید پاک فوج کے کمانڈوز کے پاس ہوتا ہے ، یہاں کے کمانڈوز کو پاکستان آرمی اور پاکستان نیوی کے کمانڈوز کے کےذریعے اعلیٰ ترین معیار کی تربیت فراہم کی جاتی ہے ، جبکہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں بھی ان کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ، پھر سب سے اہم اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس ادارے کے پانچ ہزار جوانوں کا بجٹ اتنا ہی ہے جتناسندھ پولیس کے پانچ ہزار جوانوں کا ہوتا ہے، ان پانچ ہزار جوانوں نےکراچی کے عوام کی حفاظت کے لئے قومی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر درجنوں ایسے خفیہ آپریشن کئے ہیں جن سے ملک کی سلامتی کو محفوظ بنایا گیا ، حقیقت تو یہ ہے کہ چند سال قبل کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہربن گیا تھا تاہم ان پانچ ہزار کمانڈوز نے کراچی کو اِس درجہ بندی میں اب ایک سو چھ نمبر پر پہنچادیا ہے ، ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کو قائم کرنے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا انتہائی اہم کردار رہا ہے جبکہ حکومت سندھ اس ادارے کی سب بڑی محافظ ہے جبکہ آج تک یہ ادارہ سیاسی دخل اندازی سے پاک رہا ہے ،اور یہی اس ادارے کی کامیابی کی وجہ بھی ہے ، اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور میں نے چند منٹ قبل ہی 15پر کال کر کے پولیس موبائل کو طلب کیا تھا یہ دیکھنے کے لئے کہ واقعی عام آدمی کو بھی ایس ایس یو کا کوئی فائدہ ہے اور واقعی سات منٹ میں 15کی پولیس موبائل نیچے آچکی ہے توقارئین سے درخواست ہے کہ صرف چیک کرنے کے لئے 15کو کال نہ کریں، میں بھی نیچے جاکر معذرت کرتا ہوں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین