• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان کے صرف 11برس بعد جمہوریت کا گلا گھونٹ کر جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جب عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو انہوں نے اقتدار سیاستدانوں کو لوٹانے کے بجائے جنرل محمد یحییٰ خان کو سونپ دیاحالانکہ وہ اور اس وقت کے ان کے حامی سیاسی مذاکرات میں الیکشن کروا کر اقتدار دوبارہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو حوالے کرنے کا وعدہ کر چکے تھے۔ جنرل یحییٰ خان نے الیکشن خود کرانے کا وعدہ کر لیا۔ الیکشن تو انہوں نے کرادیا ، ایسا بے داغ الیکشن کہ آج تک پاکستان میں دوبارہ نہیں ہو سکا مگر اقتدار الیکشن میں جیتنے والی جماعت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ بعض سیاستدانوں کے ساتھ ساز باز کر کے خود صدر پاکستان رہنا چاہتے تھے۔ مغربی پاکستان میں چونکہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ان کے ساتھ شراکت داری کیلئے تیار تھے مگر عوامی لیگ کے سربراہ مجیب الرحمن ، یحییٰ خان سے مذاکرات سے انکار کر چکے تھے ان کو مزاحمت کرنے پر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن لے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ یحییٰ خان کے اس اقدام نے مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کو جنہیں ورغلانے میں بھارتی حکمرانوں کا ہاتھ تھا،بغاوت پر مجبور کر دیا اور مجیب الرحمن کے ساتھیوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور پھر چند ماہ کے اندر بنگلہ دیش کی تحریک بھارت کی بھرپور حمایت سے بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ 17دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ قصہ مختصر چند ہی سالوں بعد بنگلہ دیش کے بانی اور بابائے قوم مجیب الرحمن کو ان کی اپنی فوج کے نوجوان فوجیوں نے ان کی کرپشن ، اقربا پروری اور ملک کی معاشی بدحالیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ان کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے تمام افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ ن کی لاشیں3دن تک ان کی رہائش گاہ ، دھان منڈی ڈھاکہ میں پڑی رہیں ۔ ان کی صاحبزادی حسینہ واجد (موجودہ وزیر اعظم بنگلہ دیش) ان دنوں ملک سے باہر تھیں وہ محفوظ رہیں اس کے بعد بنگلہ دیش میں بھی فوجی انقلابات آتے رہے اور فوجی نیم فوجی حکومتیں آتی رہیں ۔ آخر کار بہت عرصے کے بعد پھر بھارت کی مدد سے عوامی لیگ کو اقتدار ملا ۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی کو وزیر اعظم چنا گیا۔ پہلے اقتدار میں آنے کے بعد حسینہ واجد نے نہ ان کے والد کے قاتلوں کے خلاف کوئی آواز اٹھائی اور نہ پاکستان کے حامیوں کے خلاف کوئی مقدمات قائم کئے اور وہ خود بھی دیگرسیاستدانوں کی طرح آہستہ آہستہ کرپشن میں ملوث رہیں پھراقتدار ان سے چھین کربنگلہ دیش کی دوسری خاتون خالدہ ضیاء جو جنرل ضیاء الرحمن کی بیوہ تھیں ، اقتدار ان کو ملا ۔ وہ پاکستان کی حامی اور سمجھدار خاتون تھیں مگر باربار الیکشن ہوتے رہے اور الیکشن میں یہی 2سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی رہیں اور جاتی بھی رہیں ۔
آخری الیکشن میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد جو پاکستان دشمن پالیسیاں رکھنے اور بھارت نوازی میں سب سے آگے رہتی ہیں، اس مرتبہ کھل کر پاکستان کے حامیوں اور ان کے والد شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو خود ان کے بنائے ہوئے ٹریبونل میں موت اور عمر قید کی سزائیں دلوانے میں کامیاب ہوچکی ہیں ۔ اپنے والد کے فوجی قاتلوں کو تو وہ پھانسی کے تختے پر چڑھانے میں کامیاب ہو چکی ہیں مگر عوامی سیاستدانوں خصوصاً جماعت اسلامی کے اس وقت کے عہدیداروں ، بشمول امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم جن کی عمر 90سال ہے گزشتہ ہفتے اسی نام نہاد ٹریبونل کے ہاتھوں 90سال عمر قید کی سزا سنانے میں بہت خوش ہیں۔ مگر ان کی حکومت سزا سنا کر عوامی ردعمل کے سامنے ہل گئی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ان کے خلاف بنگلہ دیش کے بڑے بڑے شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں ، پولیس اور فوج دونوں ان مظاہرے کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ بازار اور تجارتی علاقوں میں ہڑتالوں کے سبب شہروں کا نظام درہم برہم ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران انہی پاکستانی حامیوں کے لئے ایک تسلی بخش لفظ بھی ادا نہیں کر رہے ہیں۔ 2ڈھائی لاکھ محصورین بنگلہ دیش آج بھی پاکستان کے جھنڈے کو دلوں میں سجائے بیٹھے ہیں اور اس اُمید پر زندہ ہیں کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے اور ان کا یہ خواب ضرورشرمندہٴ تعبیر ہو گا۔ راقم محترم وزیر اعظم نواز شریف کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ جب 1989ء میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ، انہوں نے 1لاکھ جوڑے کپڑوں کے محصورین کمیٹی کے توسط سے بنگلہ دیش بھجوا کر ان کو واپس پاکستان لا کر آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے چند سال بعد جب وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنے تھے اور 348محصورین بنگلہ دیش کا پہلا قافلہ بھی ایک جہاز سے لا کر ملتان کی سر زمین پر آباد کرتے ہوئے پھر وعدہ دہرایا تھا مگر وہ بقایاڈیڑھ 2لاکھ افراد کو لا کر پنجاب میں آباد کرنے کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا جبکہ اس کے بعد تیسری مرتبہ قدرت نے ان کو وزیراعظم بنایا ہے اور اس مرتبہ وہ خود مختار بھی ہیں ان کو جلاوطنی کی صعوبتیں بھی یاد ہوں گی ۔ کیا وہ آج بھی اپنے وعدے پر قائم ہیں؟یا پھر وہ بھی ماضی کے وعدوں میں بھول گئے ،نہ جانے وہ مظلوم کیسی زندگی بسر کر رہے ہوں گے ۔ اپنے کیمپوں میں سردی ، گرمی ، بارشوں میں ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔
تازہ ترین