• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں افغان طالبان نے جس سرعت سے کامیابی حاصل کی ہے اسی سرعت سے وہ اپنی قیادت کو بھی سامنے لے آتے تو یہ افغان عوام اور دنیا کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ افغان طالبان کی جانب سے اختیار کی جانے والی ممکنہ پالیسیوں اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے اثرات کا تجزیہ کر پاتے۔ بہرحال ’’ ہنوز پردہ اٹھنے کو منتظر ہے نگاہ ‘‘، مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اشرف غنی کے فرار سے لے کر ان سطور کے تحریر ہونے تک افغان طالبان نے ماضی کی نسبت بہت زیادہ ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ افغانستان کے جھنڈے اور دیگر چند مخصوص واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ امید کی جانی چاہئے کہ وہ اسی روش کو جاری رکھیں گے اور دنیا بہر حال امید پر ہی قائم ہے ۔ تاہم امید رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ وطنِ عزیز کے اربابِ اختیار قبل از وقت ایسے بیانات داغنے کی جانب چل پڑیں جس کے بعد انہی بیانات سے ہمیں خود بھی داغا جا سکتا ہو ۔ عمران خان کا افغان طالبان کی کامیابی پر بیان اسی نوعیت کا بیان ہے جو قبل از وقت ہے ۔ ایسے کسی ردِعمل کے لئے ضروری تھا اور ہے کہ کم ازکم افغان طالبان کی قیادت کے منظر عام پر آنے کا انتظار کرلیا جاتا۔ وہ کس نوعیت کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ متعارف کروائیںگے اس کا تو انتظار کر لیا جاتا مگر بدقسمتی سے ہر بات پر لب کشائی کی خواہش بڑی عجلت پسند ہے چنانچہ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ سے نائن الیون کے بعد امریکی مداخلت کے خلاف تھا حالانکہ دلچسپ صورتحال یہ تھی کہ عمران خان مشرف کی کنگز پارٹی کے قیام کے لئے اس کی مکمل طور پر حمایت کررہے تھے اور وہ نائن الیون اور اس کے بعد مشرف حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے ہر اقدام کی حمایت میں تھے ۔ یہاں تک کہ مشرف نے جب ریفرنڈم کا ڈراما کیا تو اس ڈرامے کی حمایت میں بھی عمران خان پیش پیش تھے، انہوں نے مشرف اور اس کی اختیارکردہ پالیسیوں کی حمایت تب تک جاری رکھی تھی جب تک مشرف نے 2002 کے انتخابی ڈرامے کے لئے اپنی کنگز پارٹی منتخب نہ کرلی اور عمران خان کو لال جھنڈی نہ دکھا دی ۔ون مین پارٹی کا اسے کرنا بھی کیا تھا؟ یہ تو بعد والوں کی پسند ہے کہ ون مین پارٹی کو ہی فیس سیونگ کے لئے آگے کردیا کہ ہم نہیں بلکہ جو بھی نقصان ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہو رہا ہے اور یہ بے احتیاطی صرف افغانستان اور اس سے منسلک کاموں میں دکھائی نہیں دے رہی بلکہ چین سے جڑے معاملات میں بھی اس کی واضح شکل دکھائی دے رہی ہے ۔ انہی کالموں میں کچھ عرصے قبل گزارش کی تھی کہ پاکستان کی سمندری حدود میں چینی ٹرالر نظر آرہےہیں اور ان کے حوالے سے مقامی ماہی گیروں میں سخت تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے اور ان کی بے چینی کو رفع کرنے کی غرض سے حکومت پاکستان کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہئے اور مقامی ماہی گیروں کے خدشات کو رد عمل بننے سے روک دینا چاہئے ۔ مگر دیگر معاملات کی طرح اس پر بھی پر اسرار رویہ اختیار کرلیا گیا اورمقامی افرادکی تشویش میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ یہ تو ماضی قریب کا قصہ تھا مگر اب تو وہاں پر پریشانی دن دوگنی رات چوگنی ہو رہی ہے کیونکہ پاکستانی سمندری حدود جہاں سے مقامی ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہیں وہاں پر چالیس چینی ٹرالروں کی موجودگی کی خبریں آ رہی ہیں ۔ یہ کوئی خفیہ عمل تو ہو نہیں سکتا کہ جس کے لئے خاموشی میں ہی عافیت ہو بھلا ٹرالر چھپ سکتے ہیں ؟ اس لئے اس پر دم سادھے بیٹھے رہنے سے بدرجہا بہتر ہوگا کہ پاکستان اپنی پوزیشن کو مکمل طور پر واضح کر دے کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ چین تو اس وقت ہی کوئی وضاحت دے گا جب پاکستان اپنی پوزیشن کو واضح کرے گا ۔ اسی نوعیت کی غلطیوں کے سبب دہشت گرد عناصر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی کارروائیوں کے لئے جواز تراشنا شروع کر دیتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر کا طرز عمل مکمل طور پر غلط ہونے کے باوجود وہ کہیں نہ کہیں سے اپنے لئے ہمدردی بھی حاصل کر ہی لیتا ہے، بھلا پاکستانی سمندری حدود سے مچھلیاں پکڑنا کونسا امر لازم ہے ؟ اور ویسے بھی جب ہم سی پیک سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بی آر آئی کی کامیابی سے متعدد ملکوں بشمول چین کو غیر معمولی طور پر فائدہ ہوگا تو ایسے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے چھوٹے مقاصد کو ترک کر دینا ہی عقلمندی ہوگی ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک چین کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ ان کو ،ان کی ثقافت کو تا کہ معاملات کو سمجھا جا سکتا کاش آج کا کوئی فیصلہ ساز محمد کریم احمد کی کتاب ’’چین سے چین تک ‘‘ کو ہی پڑھ لے کہ جس میں چین کی معاشرت کو بالکل عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ میں آخر میں چینی صدر شی جن پنگ کی تقریر سے اقتباس بیان کرنا چاہوں گا کہ یہ دونوں ممالک کا روڈ میپ ہونا چاہئے۔

The belt and road initiative was launched in response to the call for reforming the global governance system. The BRI promotes partnership and a community of shared future, shared rights and joint responsibilities. It offers a new approach to reform and improvement of the global

governance system.

تازہ ترین