پاکستان پیپلز پارٹی نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو ’’بیل آئوٹ‘‘ کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی اٹھائی ہوئی مہم انپے ہاتھ میں لے لی اور تنازع کا تصفیہ قومی پارلیمنٹ کے سپرد کرتی جا رہی ہے، کہنے کو ’’سپرد کر چکی ہے، بھی کہا جا سکتا ہے، لگتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سیاسی بالغ نظری کی روایت پر قائم رہتے ہوئے جمہوری نظام کے تسلسل کو وقتی یا مستقل سیاسی مفادات کے مقابلے میں ترجیح کے سکیل پر رکھنے کا فرض انجام دے گی، پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بی بی شہید کا تاریخی کردار بھی اس حوالے سےحیران کن ہے، انہوں نے میاں نواز شریف کو ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کی تہذیب اور ناگزیت سے آشنا کیا، انہیں اسے تسلیم کرنے کا قائل کیا، پاکستان میں ان کی واپسی کا راستہ فیصلہ کن نوعیت سے ہموار کیا، وہ اس تاریخی عظمت کے اظہار کے بجائے صرف اپنی ذات اور جماعت کو آگے رکھیں، ان کی شہادت کے بعد نواز شریف کی جانب سے الیکشن بائیکاٹ کے فیصلے کو آصف زرداری، میاں صاحب کو واپس لینے پر آمادہ نہ کرتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو 2008ءکے قومی انتخابات میں دو تہائی اکثریت اور پنجاب میں مکمل اقتدار سے قدرت کے سوا کون محروم رکھ سکتا تھا؟ حقیقت کا ایک چہرہ اس حقیقی چہرے میں بھی پوشیدہ ہے جسے نواز شریف صاحب نے پی پی کے گزشتہ ادوار میں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘کا نام دیا لیکن جس کا باطن ’’ٹھنڈی آگ‘‘ کا منبع تھا جس کے ذریعہ میاں صاحب نے سوئی جتنی گنجائش ملنے پر بھی، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے میں، گزشتہ پانچ برسوں کے دستیاب دنوں میں سے کسی دن کے کسی ایک لمحے میں بھی رتی بھر کوتاہی نہ کی، دنیا کی نظروں نے اس تناظر میں برسوں بعد میاں نواز شریف کو حسین حقانی کے ’’میمو گیٹ سیکنڈل‘‘ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ کی جانب لپکتے دیکھا، یوسف رضا گیلانی کو مستعفی ہونے کی سان پر لٹکائے رکھا، لیکن؟
لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے میاں نواز شریف کو ’’بیل آئوٹ‘‘ کر دیا، جمہوری تسلسل کے قومی عقیدے کے صدقے اپنی قوت اصولاً ان کے پلڑے ہی میں ڈال رہی ہے، ہر گزرتا دن اس سچائی پر تصدیقی مہر لگاتا جائے گا۔
یہ قومی سیاسی جماعت، جبکہ خود اپنی احیائے نو کے جاں گسل مراحل سے گزر رہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی کی تنظیم نو کے لئے پورے ملک کی موجود تنظیمیں ختم کر کے سارے صوبوں کے پانچ پانچ افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنا دی ہیں، انہیں تین ماہ کے اندر، ہر صوبے کے ضلع اور تحصیلوں کے سیاسی سروے اور جائزوں کی روشنی میں تجاویز مرتب کر کے مرکزی قیادت کے سامنے رکھنے کا کہا گیا ہے، بدقسمتی سے ان کمیٹیوں میں بھی ’’ایسے کارروائی افراد‘‘ شامل ہو چکے ہیں جو ان دنوں پی پی کے ذرا سے متحرک کارکن یا علاقائی لیڈر کو ’’میں تمہیں صوبے کا صدر بنوا دوں گا، میں تمہیں جنرل سیکرٹری بنوا دوں گا‘‘ کی یاوہ گوئیوں سے اپنے گندے مفادات کی مچھلیاں پکڑنے کی کوششوں کا آغاز کر چکے ہیں۔
گو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چند نظریاتی افراد ان کمیٹیوں کے ساتھ وابستہ کر دیئے ہیں جو ان رپورٹوں کو شاید ’’واقعی معروضی سچائی‘‘ کے ڈھانچے اور سانچے میں ڈھال سکیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ ’’احیائے نو‘‘ فی الوقت ہمارا موضوع نہیں، یہ تھوڑا تذکرہ میاں صاحب کی طرف چربی تک پگھلا دینے والی ’’ٹھنڈی آگ‘‘ پر مشتمل اس اپوزیشن کے پس منظر میں کرنا پڑا جس آگ میں میاں نواز شریف نے پی پی کی گزشتہ جمہوری حکومت کو راکھ کرنے میں رتی بھر کسر نہ چھوڑی، افسوس پاکستانی عوام میاں صاحب کی اس ’’ٹھنڈی آگ‘‘ والی جان لیوا اپوزیشن کا ادراک نہ کر سکے، اسے میاں صاحب کی جانب سے پی پی کی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا نام دینے کو ذہناً تسلیم کر لیا، مگر؟
مگر پاکستان پیپلز پارٹی قومی سیاسی جماعت ہے، جمہوریت کا تسلسل اس کے نزدیک پاکستان کے دکھوں کا بالآخر ممکنہ مداوا ہے، چنانچہ اس نے پاکستان کے منتخب وزیراعظم نوازشریف اور ان کی حکومت کی آئینی مدت مکمل کرانے کے قومی فریضے کو سرے تک پہنچانے میں کسی دوسرے پہلو کو خاطر میں نہ لانے کا تہیہ کر رکھا ہے، یہ وہی جماعت ہے جس کے منتخب کردہ ’’پاکستانی صدر آصف علی زرداری‘‘ کے سلسلے میں ’’ن‘‘ لیگ کے مرکزی رہنمائوں نے تہذیب و شرافت اور ملک کے ’’بزرگ عہدے‘‘ کے وقار و احترام کی دھجیاں بکھیر دیں، حسب روایت بلا کسی احساس شرمندگی و معذرت، مصیبت پڑنے پر ’’معافی‘‘ بھی مانگ لی، ،خیر اس موضوع کا بھی یہ وقت نہیں، اسی نکتے پر واپس چلتے ہیں جس سے گفتگو کی شروعات ہوئی تھیں!
پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں متعدد سوالات موجودہ منتخب وزیراعظم اور منتخب حکومت کے ان سب مخالفین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں، جن کے تمام ’’عظیم اعلانات‘‘ کرپشن کی بدی، ختم کر کے ’’اُخروی اجر‘‘ کی ’’مقدس آرزوئوں‘‘ سے لبالب بھرے ہوئے ہیں، ’’تجدید جمہوریت‘‘ یہ تمام استفسارات کے جوابات مرحمت فرمائیں جن کا اول و آخر مقصد موجودہ وزیراعظم اور ان کی منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے گھر بھیجنا ہے، ان حضرات کے مطابق، جس دن یہ کارخیر انجام دیا گیا، وہ دن پاکستان میں ’’کرپشن‘‘ کا ’’آخری دن‘‘ ہو گا۔ ان حضرات سے مطلوب جوابات کے لئے سوالیہ اشکالات کی تفصیل یہ ہے، ملاحظہ فرمایئے!
(1) پاناما لیکس کے تحت احتساب کا مطالبہ کرنے والا اپوزیشن کا منتشر اتحاد نواز شریف کو ’’کرپشن کا امام‘‘ ثابت کرنا چاہتا ہے، کیا خود اس اتحاد کے تمام افراد اپنا ’’نمازی‘‘ ہونا ثابت کر سکیں گے؟
(2) وزیراعظم کے بعد احتساب کا نعرہ لگانے والوں کی صفوں میں موجود انتہائی تنو مند کالی بھیڑیں خود بھی بچ پائیں گی؟
(3) پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار اس ایڈونچرازم کو کسی منطقی موڑ پر اختتام پذیر کر سکے گا؟
(4) کیا پاکستان پیپلز پارٹی قومی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے تحریک انصاف کی طرح ’’یکدم کامیابی‘‘ کے ناکام غیر جمہوری راستے پر چل کر اپنے جمہوری ماضی کی نفی کر سکے گی؟
(5) موجودہ حکومت کے اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے رخصت ہونے پر ملک کی قومی سیاسی جماعتوں اور جمہوری مستقبل کے ہاتھ کیا آئے گا؟ کیا اس ’’پھل یا پھلوں‘‘ کے نام بتا دیں گے جو اس صورت میں اس غیر آئینی عمل کے درخت سے گریں یا ٹپکیں گے؟
(6) چیف جسٹس آف پاکستان کے ’’انکار‘‘ کی صورت میں اپوزیشن کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ یا ’’اثبات‘‘ کی صورت اس قانونی کارروائی کی عدالت پر اپوزیشن اپنا غیر فطری اتحاد برقرار رکھ سکے گی؟ کیا پھر خود کو ’’عدالتی فورم‘‘ تک محدود رکھنے کی پابندی کرے گی یا ’’فساد فی الارض‘‘ کا یہ بے برکت کھیل بھی جاری رہے گا؟
(7) اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہونے والی کوئی سیاسی حکومت پائیدار ہو گی؟ عالمی برادری اور خطے میں جاری اور موجود پاکستانی مفادات کی یہ ضامن بن سکے گی؟ یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت سیاسی جماعتوں اور عوام کے لئے قابل قبول ہو گی؟
(8) آپریشن ضرب عضب، سرحدوں کی صورتحال، اقتصادی راہداری کی تکمیل کا سفر، حال ہی میں شروع کردہ ’’کومبنگ آپریشن‘‘ کی موجودگی میں کسی غیر آئینی آپشن کے استعمال کا کوئی آپشن موجود ہے؟
بہت کچھ تحریر کرنے سے روک لیا گیا ہے، پاکستانی عوام پاناما لیکس کے اس اچانک شور و غوغا میں نیٹ سے فائدہ اٹھائیں، پوری دنیا میں پاناما لیکس میں ذکر کئے جانے والے ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے جس کے روزمرہ میں وہی زلزلہ، گڑگڑاہٹ اور آپا دھاپی کا ایک فیصد بھی وہ حال ہے جس کے طوفان نے پاکستان کے چاروں کونوں میں دھمکیوں کی کیفیت پیدا کر دی ہے؟ اپنے ملک میں ماضی کی ان تحریکوں کو یاد کریں جن میں مقدس ترین اصطلاحات کا بھونچال لایا گیا اور پاکستان لخت لخت ہوتا رہا؟