• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا بچپن کا دوست ادھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والا ان دنوں بہت ”اوازار“ سا پھرتا ہے۔ ہاتھوں کو بے چینی سے ملتا رہتا ہے۔ انگڑائی نہ بھی آئی ہو تو انگڑائی لینے کے بہانے اپنے دونوں بازو پھیلا دیتا ہے اور پھر یونہی سینہ پھلا کر کھڑا ہو جاتا ہے، اپنی دکان پر کام کرنے والے ”چھوٹے“ کو بغیر کسی وجہ کے ایک آدھ ہاتھ جھاڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ گاہکوں میں سے بھی کوئی اونچی نیچی کرے تو اس سے لڑنے کیلئے اپنی چوکی سے اتر کر نیچے سڑک پر آجاتا ہے کئی دفعہ بیٹھے بیٹھے خلاء میں گھورنے لگتا ہے پھر مٹھیاں بھینچ کر فضاء میں بلند کرتا ہے لیکن کچھ سوچ کر مٹھیاں کھول دیتا ہے اور ہاتھ نیچے گرا دیتا ہے، میں کئی روز سے اس کی یہ حرکات و سکنات دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ گذشتہ روز مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ یار ادھے پہلوان ان دنوں تو اتنا بے چین کیوں ہے؟
اس نے یہ سن کر لمبی سی جمائی لی اور پھر برابر میں پڑی ایک لکڑی کو بغیر کسی وجہ کے گھٹنوں پر رکھ کر توڑ دیا اور کہا ”قاشمی شاب بس ان دنوں جسم ٹوٹتا رہتا ہے۔ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر سمجھ نہیں آتی کہ کیا کروں؟ “ میں نے کہا ”یار بات سمجھ نہیں آئی،“ بولا ”نہ سمجھ آنے والی تو اس میں کوئی بات نہیں، آپ بھی آخر اس ملک میں رہتے ہیں، آپ ہی بتائیں انتخابات سے پہلے جو گہماگہمی تھی جو رونقیں تھیں، جو اٹ کھڑکا تھا، وہ اب کہاں رہا ہے۔ صبح صبح اخبار آتا تھا، دل خوش ہو جاتا تھا۔ مخالفوں نے آدھے آدھے صفحوں میں ایک دوسرے کو للکارا ہوتا تھا، کالم نگار ایک دوسرے کے خلاف صفیں باندھے کھڑے ہوتے تھے، خبروں والے صفحے پر ہر لائن میں بڑھک ماری گئی ہوتی تھی۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ہتھ جوڑی کا مزا علیحدہ تھا ان کے علاوہ جلسے جلوس تھے، فلک شگاف نعرے لگتے تھے تو دل خوش ہو جاتا تھا، گھروں پر جھنڈے لہرا رہے ہوتے تھے، سڑکوں پر رنگ برنگے بینر نظر آتے تھے،گلیاں اور بازار ساری ساری رات جاگتے تھے، نعرے لگانے والے رات کو میری ہٹی پر آتے اور دو دو سیر دودھ میں آدھ آدھ سیر جلیبیاں ڈال کر پی جاتے تھے، ان دنوں دودھ کی چھ کڑاہیوں کی جگہ بیس کڑاہیاں لگتی تھیں، آپ کہتے ہیں کہ مجھے تمہاری بات ہی سمجھ نہیں آئی!“
میں نے یہ سن کر ادھے پہلوان ٹھنڈی کھوئی والے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ”یار ادھے پہلوان، یہ تو، تو نے میرے دل کی بات کہی ہے۔ خود میں بھی الیکشن کے بعد سے بہت اداس ہوں۔
الیکشن سے پہلے سیاست دان ڈالیاں لے کر میرے گھر آتے تھے۔ بچوں کو مٹھائی کیلئے لاکھ دو لاکھ روپے دے جاتے تھے، کوئی اظہار محبت کے طور پر کار کی چابیاں چھوڑ جاتا تھا، کوئی الاٹمنٹ آرڈر دے جاتا تھا، اب جب سے حکومت بنی ہے کسی نے لوٹ کر خبر ہی نہیں لی۔ اکثریت والے اپنی اکثریت کے زعم میں ہیں اوراقلیت والی دوسری پارٹیاں اپنا حوصلہ ہار بیٹھی ہیں کہ انہیں اپنی حمایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، کیسا زمانہ آگیا ہے، اہل فن کو کوئی پوچھتاہی نہیں۔“
یہ سن کر ادھے پہلوان نے گرم جوشی سے میرا ہاتھ تھاما اور کہا ”قاشمی شاب، خدا کا شکر ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے، آج ایک ایم پی اے بھی میرے پاس آیا تھا وہ میرا پرانا گاہک ہے، وہ بھی اس صورتحال پر پریشان تھا، آپ کچھ کریں۔“
”تمہی بتاؤ کیا کروں؟“
”کچھ کریں، بس کھڑکا ورکا ہونا چاہئے۔“
میں نے ادھے پہلوان کی طرف امید بھر نظروں سے دیکھا اور کہا ”میرے، تمہارے اور تمہارے ایم پی ے گاہک کے علاوہ قوم کے اور بھی بہت سے افراد یہ کھڑکا وڑکا چاہتے تھے، تم بڑے دانا آدمی ہو ذرا ”سائنس“ لڑاؤ اور بتاؤ کیا کرنا چاہئے“
ادھا پہلوان میرے اس خراج تحسین پر بہت خوش ہوا اور پھر وہ گہری سوچ میں غرق نظر آنے لگا۔
پھر اس نے گردن اوپر اٹھائی اور چٹکی بجا کر کہا کہ قاشمی شاب ایک ترکیب سوجھی ہے آپ ابھی اپنا فون نکالیں اور صدر اوباما کو کال ملائیں!“
میں ادھے پہلوان کی بات سن کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کیونکہ ادھا پہلوان ہمیشہ سے یہی سمجھتا ہے کہ میں وزیراعظم پاکستان یا صدر امریکہ سے جب چاہے فون پر بات کرسکتا ہوں اور میں نے اسکے خیال کی کبھی تردید بھی نہیں کی۔ چنانچہ اس وقت بھی میں نے اسے اسی مغالطے میں رکھا اور کہا ”یار! میں اوباما کو فون تو کرتا لیکن اس وقت وہاں رات کے گیارہ بجے ہیں اور مجھے پتہ ہے اوباما اس وقت کسی سینما میں کسی فلم کا آخری شو دیکھنے گیا ہوگا؟
ادھے پہلوان نے یہ سن کر سر ہلایا جسکا مطلب تھا اسے میری بات سمجھ آگئی ہے چنانچہ اس نے کہا ”ٹھیک ہے آپ صبح اس سے بات کرلیں لیکن بات کریں ضرور!
میں نے پوچھا۔ ”کیا بات کروں“
ادّھے پہلوان نے کہا کہ بس یہی کہ پاکستان میں کچھ ”گہماگہمی ہونا چاہئے۔“
”اگر اس نے کہا کہ ابھی امریکہ کو اس گہماگہمی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر؟
یہ سن کر ادھا پہلوان سر کھجانے لگا۔پھر آہستہ سے بولا اس صورت میں اوباما سے کہیں کہ جب تک گہماگہمی شروع نہیں ہوتی۔ وہ مجھ سمیت ان سب ”ادھے پہلوانوں‘ ‘ کو امریکہ بلوائے جو زندگی میں پورے پہلوان نہیں بن سکے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی سب“ ادھے پہلوانوں کی اسی ملک میں قدر افزائی کا کوئی معقول انتظام کرے اور یہ مطالبہ ہم اوباما ہی سے کرسکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے تمام ادھے پہلوان ایسے مواقع پر ہمیشہ اس کی طرف دیکھتے یں۔
اور اب کالم کے آخر میں رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں اردو کے ممتاز شاعر جلیل عالی کی ایک نعت کے کچھ اشعار:
ہے رحمت شہ، بلخ، بخارے کہاں ہوتے
گلزار، بیابان ہمارے کہاں ہوتے
سب کچھ ہے اسی نور جہاں تاب سے ورنہ
دھرتی کہاں ہوتی یہ ستارے کہاں ہوتے
اس عزم ظفر یاب کا فیصان ہے ورنہ
کچھ خواب نگرھم نے اسارے کہاں ہوتے
آئینہ سیرت جو عنایت نہیں ہوتا
انساں نے خدوخال سنوارے کہاں ہوتے
اس خلق مثالی سے اگر فیض نہ پاتی
تہذیب نے آداب نکھارے کہاں ہوتے
عکس اس کے نگاہوں میں اتارے ہیں، نہیں تو
رنگوں سے رہائی کے سہارے کہاں ہوتے
عالی وہ نہ کرتا جو مسیحائی ہماری
کب کھلتی گرہ، درد کے چارے کہاں ہوتے
تازہ ترین