• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ کراچی کی معروف کاروباری وسماجی شخصیت کے طور پر شہر کے سماجی حلقوں میں معروف تھا ،وہ اپنی عمر کی پچاس دہائیاں مکمل کرچکا تھا اور اس عمر میں کاروبار کیساتھ ساتھ سماجی خدمات پر بھی توجہ دینا چاہتا تھا تاکہ جو کچھ دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ غریب اور نادار لوگوں میں بھی تقسیم کرسکے ، اسی لئے وہ شام چاربجے تک اپنے آفس سے گھر جاکر کچھ آرام کرتا اور پھر ہر روز ہی چند گھنٹے مستحق اور نادار لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے وقف کرکے سکون قلب تلاش کرتا ، اس روز بھی موسم گرما اپنی شدت پر تھا لیکن وہ اپنی آرام دہ گاڑی میں دو سیکورٹی گارڈز کیساتھ کراچی کے پوش علاقے میں واقع اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا اور گھر پہنچنے سے چند منٹ پہلے اسکے گارڈز نے فون کرکے گھر میں موجود مسلح گارڈز کو دروازہ کھولنے کی ہدایات دیں تاکہ ان کی گاڑی کو دروازے پر انتظار نہ کرنا پڑے ، اس وقت تک سب کچھ ٹھیک ہی محسوس ہورہا تھا کہیں بھی یہ گمان نہیں ہوا کہ کوئی گاڑی ان کا تعاقب کررہی ہے ،ہوتا بھی کیوں اس کی کبھی کسی سے دشمنی نہیں تھی ، البتہ اسکے دفتر میں کچھ دنوں سے کسی گروپ کی جانب سے رقم کے مطالبے کیلئے فون آرہے تھے جس کے بعد دوستوں کے مشورے سے اس نے کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلح گارڈز رکھ لئے تھے لیکن ا س نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی گروپ یا گینگ اتنی منصوبہ بندی سے اسکے خلاف کارروائی کے پر تول رہا ہے ، چند لمحوں بعد ہی وہ گھر کے باہر موجود تھا اور ہلکے سے ہارن کیساتھ ہی گھر کا درواز ہ کھل چکا تھا اور گاڑی گھر میں داخل ہوگئی تھی کہ اچانک ہی پیچھے سے ایک اور گاڑی نے اس کی گاڑی کو زوردار ٹکر ماری اور وہ بھی گھر میں داخل ہوگئی اسکے پیچھے ایک اور گاڑی تھی جبکہ ایک موٹر سائیکل پر دو مزید لوگ بھی موجود تھے ،یہ سب اتنا آناََ فاناََ ہوا کہ نہ اسے اور نہ ہی اسکے گارڈز کو سنبھلنے کا موقع مل سکا ،پیچھے آنے والی گاڑیوں میں سے تقریباََ دس مسلح افرا دگھر میں داخل ہوگئے انھوں نے چاروں مسلح گارڈز پر دھاوا بولتے ہوئے اسلحہ چھین کر انھیں ایک کمرے میں بند کیا اور پھر میرے دوست کودو افراد نے گریبان سے پکڑ کر گاڑی سے نکالا اور دوسری گاڑی میں ڈال کرروانہ ہوگئے ، گاڑی میں بیٹھنے کے بعد میرے دوست کے کچھ حواس بحال ہوئے تو اس نے پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ کون لوگ ہیں اور اسے کہاں لے جارہے ہیں تو پستول کا بٹ اسکے کندھے پر زور دار طریقے سے مارا کہ اس کی چیخیں نکل گئیں او راس نے مزید کچھ پوچھا اور نہ ہی اس میں ہمت تھی ، گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اسے درمیان میں سیٹ کے نیچے بٹھایا گیا تھا جب کے اسکے برابر میں دومسلح افراد بیٹھے تھے اور باہر والوں کو بالکل محسوس نہیں ہورہا تھا کہ اس گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دو نہیں تین افراد موجود ہیں ، ان کی گاڑی اب کسی نامعلوم مقام پر رواں دواں تھی ، ایک گھنٹے تک کراچی کی سڑکوں پر گاڑی دوڑائی جاتی رہی یہ دیکھنے کیلئے کہ ان کی گاڑی کا پیچھا تو نہیں کیا جارہا اور جب اغوا کار مطمئن ہوگئے توانھوں نے گاڑی کا رخ اصل منزل کی جانب موڑ دیا ، یہ نئی منزل تھی لیاری میں واقع ایک پرانی فیکٹری تھی ،یہاں پہنچ کر اغوا کار انتہائی بے خوف نظر آنے لگے ، اسے بے رحمی سے گاڑی سے اتارلیا گیا اورکھینچتے ہوئے ایک مکان میں بنے تہہ خانے میں لے جایا گیا ، یہاں ایک نئی دنیا ہی آباد تھی ، جگہ جگہ میزیں کرسیاں موجود تھیں ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اسے کسی آفس میں لے آئیں ہیں لیکن چند لمحوں میں اندازہ ہوگیا کہ وہ اس تہہ خانے میں اکیلا ہی مغوی نہیں ہے بلکہ بہت سے مغویوں کو یہاں رکھا گیا تھا اور کئی افراد فون پر مغویوں کے اہل خانہ سے تاوان کی وصولی کیلئے بات چیت میں مصروف تھے ، کراچی میں اغوا کو کاروبار کی شکل دے دی گئی تھی ، قانون کی عملداری ختم ہوکررہ گئی تھی ، چند لمحوں بعد ہی اسکے سرپر پستول رکھ کر کلمہ پڑھنے کو کہا گیا ، اغواء کار وں کاکہنا تھا کہ تمہیں قتل کرنے کیلئے رقم دی گئی ہے ، میرے دوست کے ہاتھ پیر شل ہوگئےوہ کلمہ پڑھنا چاہ رہا تھا لیکن زبان بھی گنگ ہو گئی تھی ، اس کی حالت دیکھتے ہوئے اغوا کاروں نے زور دار قہقہہ لگایا ،پھر چند لمحوں بعد اس سے رقم کی تفصیلات معلوم کرنے لگے اور رابطے کیلئے اسکے گھر میں موجود اہم افراد جو رقم کا بندوبست کرسکتے تھے ۔
ان کے نمبر حاصل کئے جانے لگے ، معلومات حاصل کرتے ہوئے اس پر سخت تشدد بھی کیاجارہا تھا ، عمر کے اس حصے میں ہونے والا تشدد اس کیلئے نہ صرف جسمانی طورپر بلکہ روحانی طور پر بھی ناقابل برداشت ہورہا تھا ، اسے میز کیساتھ موجود ایک کرسی پر بٹھادیا گیا جس طرح دیگر مغویوں کو بٹھایا گیا تھا ، ایک خاص بات اس نے دیکھی کہ جب کسی بھی مغوی سے اسکے اہل خانہ کی بات کرائی جاتی تو ایک چمڑے کی بیلٹ سے اس پر سخت تشدد بھی کیا جاتا تاکہ اسکے اہل خانہ مغوی کی چیخیں سن سکیں اور اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کریں ، میرے دوست کیساتھ بھی یہی کیا گیا اس کی چھوٹے بھائی سے بات کرائی گئی اور دوران گفتگو اس پر شدید تشدد کیاجانے لگا ، اس شدید تشدد کے باعث میرا دوست اد ھ موا ہوچکا تھا اور چیخ و پکار کے باعث دوسری جانب موجود چھوٹا بھائی بھی رو رہا تھا لیکن اغواکار کسی طرح تشدد ختم کرنے پر تیا ر نہیں تھے ، کچھ دیر بعد ایک اغواکار نے فون ہاتھ میں لیتے ہوئے میرے مغوی دوست کے بھائی سے کئی کروڑ روپے تاوان کے طور پر طلب کئے جس کا شاید میرے دوست اور اسکے بھائی کیلئے بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا،کافی دیر بعد ایک ایسی رقم جو بندوبست کے قابل تھی پر دونوں پارٹیوں نے رضا مندی ظاہر کردی ، معاملہ یہ طے ہوا کہ کراچی کے ساحلی علاقے میں میرے مغوی دوست کا بھائی رقم لیکر پہنچے گا ، وہ اکیلا ہی ہوگا اور دوسری جانب اغواکار میرے دوست کو بھی ساتھ لائیں گے اور اسی وقت یہ لین دین مکمل ہوجائے گا ، لیکن اس وقت تک میرے مغوی دوست کے بھائی نے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں سے ہی رابطہ کرلیا تھا جبکہ اہم عسکری ادارے میں اہم عہدے پر تعینات اپنے قریبی عزیز کو بھی معاملات سے آگاہ کردیا تھا جس کے بعد اس کیس کو ہائی پروفائل حیثیت حاصل ہوچکی تھی جدید ترین مانیٹرنگ نظام کے بعد نہ صرف اغوا کاروں کا پتہ چلا لیا گیا بلکہ میرے دوست کو جس گاڑی میں لے جایا گیا تھا اسے بھی ٹریک کرلیا گیا ،آپریشن کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں ٹیمیں تیار تھیں کسی بھی وقت آپریشن شروع ہونے والا تھا ، دوسری جانب اغوا کار جن کا تعلق لیاری سے تھا وہ میرے مغوی دوست کو تاوان کے حصول کیلئے ساحل تک لانے کیلئے نکلے ہی تھے کہ انھیں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انھیں بتایا گیا کہ مغوی انتہائی بااثر آدمی ہے اور اغواکاروں کو ٹریک کرلیا گیا ہے اور ان کے خلاف سخت آپریشن ہونے والا ہے جس میں ان کا بچنا مشکل ہوسکتاہے ، جس کے بعد ایک بار پھر میرے مغوی دوست کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر اغوا کار اسے ایک فاسٹ فوڈ ریستوران کے پاس چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اس وقت رات کے دوبج چکے تھے میرے دوست نے ریستوران میں کام کرنے والے کسی فرد سے فون کرکے اپنے اہل خانہ کو اپنی موجودگی کی اطلاع دی اور پھر چند لمحوں بعد وہ اپنے اہل خانہ کیساتھ موجود تھا ،میرا دوست آج میرے سامنے موجود تھا اور اس کا کہنا ہے کہ اگر ہر کیس کو ہائی پروفائل کیس کے طور پر ڈیل کیا جائے تو کراچی کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں.
تازہ ترین