• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان فنڈ میں توسیع کی سہولت (ای ایفایف)کے تحت اسٹاف کی سطح پر 5ارب 30کروڑ روپے کے نئے بیل ائٓوٹ پیکیج پر اتفاق ہوگیا ہے۔ ستمبر کے ابتداء میں پروگرام کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کئے جانے سے قبل پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر اہم کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ میرے اس آرٹیکل کا عنوان ان ترجیحی کارروائیوں میں سے ایک ہے جن میں کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی)کی جانب سے مالی ذمہ داریاں شامل ہیں۔سی سی آئی کی مالی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آئی ایم ایف پروگرام کی کامیابی کیلئے یہ انتہائی ضروری کیوں ہے؟ عام الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد پیدا ہونے والے مسائل آئی ایم ایف پروگرام کیلئے ضروری ہے۔ان مسائل کو حل کئے بغیر آئی ایم ایف کا پروگرام کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا اسی لئے اس ضمن میں ترجیحی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2009ء میں جب سے این ایف سی ایوارڈ تشکیل پایا ہے، میں اس وقت سے بار بار یہ بات دہرا رہا ہوں کہ اس میں ارتقائی نقص موجود ہے اور اسے دور کئے بغیر ملک میں کبھی بھی مالی انضباط قائم نہیں کیا جاسکتا یا معیشت کلاں میں استحکام نہیں لایا جاسکتا۔میں وقتاً فوقتاً ان مسائل کو دور کرنے کیلئے تجاویز بھی دے چکا ہوں تاہم میری تجویز کو نظر انداز کیا گیا کیوں کہ اس میں 5ارب 30کروڑ کا بیل ائٓوٹ پیکیج نہیں تھا۔ آئی ایم ایف نے میرے آرٹیکل کا نوٹس لیا اور 2011ء میں آرٹیکل 4 کی مشاورتی رپورٹ میں بھی ان قابل غور صفحات کو منسلک کیا جس کا عنوان "پاکستان میں مالی لامرکزیت: بہت زیادہ، بہت تیزی سے" ہے جسے 2012ء میں جاری ہونے والی آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ نمبر 12/35 میں دیکھی جاسکتی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے میری اس تجویز سے اتفاق کیا کہ ایک ایسا مشترکہ نظام متعارف کروانا چاہیئے جس کے ذریعے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے معاشی اہداف کے تعاون سے مجموعی مالی خسارے کے اہداف تک رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ یہ بات اب بالکل عیاں ہے کہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ کی موجودگی میں ملک میں کبھی بھی مالی انضباط قائم نہیں کیا جاسکتا اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیابی صرف ایک ادھورا خواب ثابت ہوگی۔آئی ایم ایف بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ اگرچہ رکن ملک کی نمائندگی کرنے والی مرکزی قیادت اہل ہے تاہم تمام مالی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ اسی لئے این ایف سی ایوارڈ کے بعد مالی انضباط اور معیشت کے کلاں میں استحکام کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوگئی ہے۔ صوبائی حکومتوں کے مستحکم تعاون کے بغیر وفاقی وزیر خزانہ مالی اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔سی سی آئی میں اسی بات پر بحث کی جائیگی۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے سامنے پروگرام پیش کئے جانے سے قبل سی سی آئی کی منظوری کیلئے ترجیحی اقدامات انتہائی اہم ہوں گے۔ اس وقت 2010ء میں دیا جانے والا ساتواں این ایف سی ایوارڈ نافذ العمل ہے۔ بیشتر وسائل صوبوں کیلئے مختص کردیے گئے ہیں اور خالص آمدن کی رقم کی تقسیم کردہ فارمولے کے تحت2010-2011ء میں 56 فیصد، 2011-12 میں 57.7 فیصد حاصل کیا۔ اسی طرح اس دورانیئے میں مرکزی حکومت نے بالترتیب 44 فیصد اور 42.55 فیصد حصہ حاصل کیا۔ اسی وجہ سے مشترکہ مصارف کی وصولی 5 فیصد سے کم ہوکر 1 فیصد تک ہوگئی جس کی وجہ سے خالص آمدن میں 4 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ ایوارڈ بہت زیادہ وسیع، تیز اور اس میں معاشی بنیادوں کا فقدان تھا۔ اس ایوارڈ کو انتہائی جلد بازی میں مکمل کیا گیا اور اسے ایک اچھا سیاسی ایوارڈ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بے شمار وسائل صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیے گئے جہاں کبھی بھی مالی انضباط نہیں رہا۔ صوبائی حکومتیں رقم کو کفایت شعاری سے خرچ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ صوبائی اقتصادی کوشش میں پہلے ہی کمی دیکھی گئی ہے اور اس ایوارڈ کے بعد صوبوں کی جانب سے اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کرنے کومزید ختم کردیا ہے اور یا یہ اب ان کی مجبوری نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ نیا این ایف سی ایوارڈ پاکستان کی معشیت کو مستحکم کرنے کیلئے ایک بحران ہے۔ اس کی وجہ سے خصوصاً صوبوں میں مالی انضباط میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں تغیر پذیر وسیع مالی خسارہ دیکھنے میں آیا جس میں این ایف سی ایوارڈ کے نفاذ بعد سے گزشتہ 3 برس کے دوران سالانہ 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جیسے ہی 60 فیصد سے زیادہ وسائل صوبوں کو منتقل کئے جارہے ہیں جو کہ مالی انضباط میں مزید اضافے کا سبب بنا، اس این ایف سی ایوارڈ نے ملک میں معیشیت کلاں کے استحکام کا بحران کا بیج بویا ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام معیشیت کے کلاں کے استحکام کیلئے ترتیب دیا گیا ہے جو کہ براہ راست این ایف سی ایوارڈ سے متنازع ہے۔ سی سی آئی میں ترجیحی طور پر اس تنازعے کو دور کرنا پڑے گا۔
جن لوگوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت معاملات طے کئے انہوں نے قوم کیساتھ بڑی زیادتی کی۔ صوبائی وزرائے خزانہ اور ان کے ماہرین نے توقعات سے بڑھ کر حصہ حاصل لیا۔ وہ لوگ جو وفاقی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے تکنیکی معلومات سے ناواقف تھے انہوں نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا تھا اور این ایف سی ایوارڈ کو تشکیل دیتے ہوئے انتہائی جلد بازی کی جس کی وجہ سے آج معیشیت کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔اس وقت کے وزیر خزانہ اور سیکرٹری کو اس بات کا احساس ہونا چاہیئے تھا کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعے سے معیشت کے کلاں کے بحران کا بیج بو رہے ہیں۔ وسیع وسائل کی وجہ سے صوبوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کیلئے سخت مالی ضابطوں کی ضرورت ہے۔ صوبوں کو وسائل کی منتقلی میں بتدریج اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ حقیقت میں صوبوں کو ان کی استعداد کے مطابق وسائل منتقل کرنے چاہیے تھے۔اب چوں کہ ضرب لگ چکی ہے صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بہتر انداز سے رقم خرچ کرنے کیلئے اپنی استعداد کو مستحکم کرے۔ سی سی آئی کے اجلاس میں کس بات پر بحث ہونی چاہیے؟ ایک چیز تو بالکل واضح ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اس بات پر متفق ہونا ایک چیلنجنگ ٹاسک ہوگا اور اس پر غور و خوض کرنا آسان نہ ہوگا۔ مرکزی حکومت صوبائی بجٹس میں زائد اہداف پر زور دیگی جس کے عملدرآمد کیلئے حدود کا تعین کرنا لازمی ہوگا۔ صوبائی حکومتیں بڑی آسانی سے کہیں گی کہ ”ہمیں بجٹ کا ریونیو فراہم کیا جائے، ہم آپ کو مقررہ اہداف پورے کرینگے“۔ ریونیو کے اہداف کا تعین کرتے ہوئے خصوصاً ایف بی آر کے معاملے پر وفاقی حکومت نے غلطی کی ہے۔ اس نے ریونیو کو ہمیشہ ہی ایک غیر اہم سمجھا ہے اور ریونیو کے اہداف کا ملک میں معاشی سرگرمی کی برابری سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہم بجٹ کے مصارف کو پہلے حتمی شکل دیتے ہیں اور اس کے بعد مختلف اسٹیک ہولڈرز کیلئے بجٹ خسارے کا تعین کیا جاتا ہے۔ جب ان دونوں کو حتمی شکل دے دی جاتی ہے صرف ایک چیز رہ جاتی ہے جس کا علم نہیں ہوتا وہ آمدنی کا ہندسہ ہے۔بہت بامقصد آمدنی کے اہداف کو حاصل کرنا وفاقی حکومت کی مجبوری ہے،اسے بااثر طبقے کے منصوبوں کیلئے گنجائش نکالنی ہوتی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ذرائع مختص کرنے اور آمدنی کا ہدف طے کرنے کے بعد صوبائی حکومت اپنے اخراجاتی منصوبے بناتی ہے۔ حکومت کی جانب سے صوبوں سے اضافی مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے کی توقع کرنا اور اسی وقت بجٹ آمدنی انہیں نہ دینا بہت انصافی ہے۔ اپنی جگہ غلط ہیں اور دونوں کو ہی اپنی پوزیشن میں ضرورت کے مطابق ڈھالنا ہوگا، وفاقی حکومت ایف بی آر کیلئے آمدنی کا ایک حقیقی ہدف مقرر کرے، زائد آمدنی کیلئے صوبوں سے اتفاق کرے اور مالی سال کے دوران زائد اہداف حاصل کرنے کیلئے طریق کار وضع کرے۔یہ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ اس خوف سے کہ اسٹاف کی سطح کا معاہدہ آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے پیش نہیں کیا جائیگا، سی سی آئی کو ستمبر سے پہلے قابل عمل حل تلاش کرنا چاہئے۔
تازہ ترین