• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرولنگ کا دوردور ہ ہے ؛حتیٰ کہ ساٹھ ساٹھ سالہ بزرگ بھی اس میدان میں اپنے جوہر آزما رہے ہیں۔ چند روز قبل ایسی ہی ایک ہستی نے جب مجھ پر طنز کی کوشش کی تو مجھے بے حد رحم آیا۔ آج مسکین سے مسکین آدمی بھی دوسروں پہ طنز کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ مزاروں پر دن رات دعائیں مانگنے والے بھی آج ان طالبان کا مقدمہ لڑر ہے ہیں، جو ان مزاروں کو شرک کا مرکز قرار دیتے ہیں۔ متذکرہ بزرگ طاہر القادری کے بھی حامی تھے۔ آپ دہشت گردوں کے خلاف علامہ طاہر القادری کے فتوے دیکھیں۔ یہ لوگ طالبان کے100 فیصد برعکس ہیں اور اِن کی اولاد مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی اور مخلوط اداروں میں نوکریاں کرتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انکی اولاد شادی کے بعد یورپ یا امریکہ میں کہیں سیٹ ہو جائے۔ باقی رہ گئے افغانوں کے بچے تو وہ انسانی بم بننے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان میں صورتِ حال اس وقت بہت نازک ہے۔ ان لوگوں کے نقطہ نظر سے ہمیں داعش کی مذمت کرنی ہے، افغان طالبان کی مدح کرنی ہے، پاکستانی طالبان کی مذمت کرنی ہے اور القاعدہ کا ابھی فائنل نہیں ہوا کہ کیا کرنا ہے حالانکہ القاعدہ کے علاوہ باقی تینوں گروہوں کا ڈین این اے ایک ہی ہے۔ ان کی زبان ایک ہے، نسل ایک ہے، عقیدہ ایک ہے، مکتبِ فکر ایک ہے۔

افغانستان سے مضحکہ خیز امریکی واپسی نے ان لوگوں کو بے حد تکبر میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ملّا عمر کے غریب و بے نوا مجاہدین نے خدائی نصرت سے عالمی طاقت کو خاک چٹا ڈالی ؛چنانچہ مسلمانوں کو جشن منانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی کابل ہوائی اڈے پر داعش نے بم دھماکے کر کے تیرہ امریکی فوجیوں سمیت 170افراد کو قتل کر ڈالا۔ طالبان ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ کہ طالبان خودکش حملے کی مذمت کررہے ہیں۔ سبحان تیری قدرت!

خود کش حملوں کی سائنس القاعدہ نے طالبان کو سکھائی۔ ان سے پھر پاکستانی طالبان نے یہ ’’ہنر‘‘ سیکھا اور بعد ازاں داعش نے۔ اسامہ بن لادن کا منصوبہ یہ تھا کہ کروڑوں کی آبادی رکھنے والے بڑے بڑے شہروں کو چند سو خودکش لڑکوں کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔ عالمی امن ختم ہو جانا تھا۔ اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاک فوج بنی۔ ملّا عمر نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے افغانستان کو ایک ٹریننگ کیمپ کے طور پر القاعدہ کے حوالے کر دیا تھا۔نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کی ایک قیمتی نگینے کی طرح حفاظت کرتے ہوئے افغانستان میں انہوں نے ڈیڑھ لاکھ شہری قتل کروا ڈالے۔ ان میں امریکیوں کی تعداد صرف اڑھائی ہزار تھی۔ یہ ہے ہماری فتح۔

جو لوگ کابل کے ہوائی اڈے پر داعش کے خود کش حملوں کی مذمت کر رہے ہیں، وہ طالبان کے خود کش حملوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ داعش نے تو ایک ہی ہلے میں تیرہ امریکی فوجیوں کو قتل کر ڈالا۔ طالبان نے ایک ایک امریکی فوجی کو مار ڈالنے کے لئے بیسیوں افغان شہری اڑا ڈالے۔ داعش کے خود کش حملے حرام ہیں مگر طالبان کے حملے حلال اور القاعدہ کے نیم حرام؟ منطق سمجھ نہیں آرہی۔ اگر کوئی حال ہی میں بالغ ہونے والے آپ کے بارہ تیرہ سالہ بچّے سے حوروں کا وعدہ کر کے اسے خودکش دھماکہ کرنے پر راضی کر لے تو کیا پھر بھی آپ اتنے ہی پرجوش ہوں گے ؟چھ سال قبل داعش جب تیزی سے سر اٹھا رہی تھی تو طالبان کو روتے ہوئے دیکھا۔ فرمایا : جن لوگوں کو سوویت یونین نہیں ہرا سکا، امریکہ نہیں ہرا سکا، وہ داعش کے فتنے کا شکار ہو کر اپنے ہی طالبان بھائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ داعش کے جنگجو آسمان سے نہیں گرے، یہ طالبان ہی سے نکلے ہیں۔ طالبان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہم نیک ہیں، باقی مسلمان گمراہ۔ داعش کا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان بھی گمراہ ہیں۔

امریکہ سے نفرت مجھے بھی ہے لیکن نفرت سے زمینی حقائق بدل تونہیں جاتے۔ جنگ لڑنے کا ایک انسانی طریقہ ہوتاہے۔ فوجی جوان ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جہاز گرائے جائیں۔ آبدوزیں ٹکرائیں۔ آج مسلمان بحیثیتِ مجموعی خود فریبی کا شکار ہو چکے۔ کیا مسلمانوں کے جنگی جہازوں نے امریکی جنگی جہاز گرا ڈالے یا اس کا بحری بیڑہ تباہ کر ڈالا ؟ کیا آمنے سامنے کی جنگ میں امریکی فوج کو طالبان نے افغان شہروں میں داخل ہونے نہیں دیا۔ جس طرح مسلمانوں نے خود کش حملوں سے بھرپور یہ جنگ لڑی، اس میں کوئی Graceنہیں تھی بلکہ یہ قابلِ نفرت تھی۔عراق، افغانستان، شام اور لیبیا سمیت نیٹو نے جہاں چاہا حملہ کر کے حکومتیں گرا دیں۔ آج دنیا میں کوئی مسلمان ملک ایسا ہے، جو امریکہ پر حملہ کر سکے ؟یہ انسانی تاریخ کی پہلی فتح ہے، جس میں فاتح ملک تباہی و بربادی کا شکار ہے اور مفتوح ملک کی طرف سے مالی امداد کا متمنی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ افغانستان میں امریکی تھک کر لوٹ گئے لیکن کیااب ہم اپنی اولاد کو ان ننھے خودکش بمباروں سے متاثر کریں گے، بے گناہ جنہیں قتل کر ڈالا گیا۔

تازہ ترین