• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک حافظ قرآن حفظ کے مدّرس ہیں اور درسِ نظامی کے ابتدائی درجات بھی پڑھے ہوئے ہیں ،اُن کی ایک ٹانگ اور ایک بازو دوسری کی بہ نسبت چھوٹے ہیں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بھی کم ہیں ،لیکن طہارت اور اپنے دیگر معاملات کسی دوسرے کی مدد کے بغیر صحیح طور پر انجام دیتے ہیں۔ کیا یہ امامت کے لائق ہیں اور ایسے شخص کی اقتدا میں نماز جائز ہے ؟،(محمد فصیح الرحمن ،کراچی)

جواب: آپ نے حافظ صاحب کے جو جسمانی نقص بیان کیے ہیں ،اُن کی وجہ سے ارکانِ نماز ،رکوع وسجود کی ادائی میں کوئی فرق نہیں آ تا اور امام صاحب کامل طریقے سے طہارت کرسکتے ہیں ،تو ان کی امامت درست ہے ، البتہ اگر کوئی سالم الاعضا ء شخص ہو تو اسے امام بنانا بہتر ہے ، علامہ نظام الدین لکھتے ہیں : ترجمہ :’’ کبڑا آدمی کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کی امامت اُسی طرح کرسکتا ہے ،جیسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی امامت کرسکتا ہے، ’’ذخیرہ ‘‘ اور ’’خانیہ‘‘ میں اسی طرح ہے ،’’نظم‘‘ میں ہے : اس کے قیام اور رکوع میں فرق ظاہر ہوتو بالاتفاق جائز ہے اور اگر فرق ظاہر نہ ہوتو امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے ،اسی کو اکثر علماء نے اختیار کیا ہے ، امام محمد رحمہ اللہ نے اس کی مخالفت کی ہے ، ’’کفایہ‘‘ میں اسی طرح ہے ،اگر امام کے پیر میں ٹیڑھا پن (ایسا نقص ہو)کہ پورا پاؤں زمین پر نہیں جماسکتا، تب بھی اس کی امامت جائز ہے ،مگر (اس کے مقابلے میں)غیر معذور کی امامت بہتر ہے،(فتاویٰ عالمگیری جلد1ص: 83مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ)‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اور اسی طرح پاؤں کے بعض حصے پر کھڑے ہونے والے لنگڑے شخص کے علاوہ دوسرے کی اقتدا بہتر ہے ،بحوالہ : ’’تتارخانیہ ‘‘،یہی حکم ہتھ کٹے کا ہے ،’’برجندی‘‘۔اور (یہی حکم اس کا ہے) جس کا ذکر کٹاہواہو ، پیشاب روکنے والا اور جس کا ایک ہاتھ ہو، اُن کی اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی ہے ، ’’فَتَاوَی الصُّوفِیَّۃِ عَنْ التُّحْفَۃِ‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ علت نفرت ہے ،اسی لیے برص والے کو برص کے پھیلنے سے مُقیّد کیاہے تاکہ وہ ظاہر ہو اور مفلوج ،ہاتھ کٹے ہوئے اورذکر کٹے ہوئے کی اقتدا اس لیے مکروہ ہے کہ ممکن ہے وہ مکمل طہارت نہ کرسکتا ہو،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد1، ص:562)‘‘ ۔

امام احمد رضاقادری رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا:’’ ایک شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے ،اس بنا پر تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت اس کا ہاتھ کانوں تک نہیں پہنچتا اورکانوں کی لَو سے مَس نہیں ہوتا ،اس بناپر بعض لوگ اُس کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے انکارکرتے ہیں ،کیا اس شخص کی اقتدا میں نماز نہیں ہوتی ’’خلاصہ‘‘، آپ نے جواب میں لکھا:’’ خیال مذکور غلط ہے ،اُس کے پیچھے جوازِ نماز میں کلام نہیں ،ہاں !غایت یہ ہے کہ اس کا غیر اَولیٰ ہونا ہے ،وہ بھی اس حالت میں کہ یہ شخص تمام حاضرین سے علم مسائلِ نماز وطہارت میں زیادت نہ رکھتا ہو ورنہ یہی اَحقّ و اَولیٰ ہے،(فتاویٰ رضویہ، جلد6، ص:450)‘‘۔یعنی دوسروں کے مقابلے میں علمی تَفوُّق کی بناپر یہی شخص امامت کا زیادہ حق دار ہے اوراس کا امام بنانا اَولیٰ ہے ۔

مفتی وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا: ایک آدمی جس کے دونوں پاؤں کی انگلیاں نہیں ہیں، کیا وہ ان لوگوں کی امامت کرسکتا ہے؟،جن کے دونوں پاؤں درست ہوں،آپ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:’’شریعت میں نماز کے احکام میں معذور اس کو کہتے ہیں، جس میں وضو توڑنے والی کوئی بات پائی جائے، اس طرح کہ وہ وضو کرکے نماز پڑھنے کا وقت بھی نہ پاسکے کہ وضو ٹوٹ جائے، مثلاً باربار پیشاب کے قطروں کا آنا،ہروقت ریح کا خارج ہونا یا بدن سے خون یا پیپ کا بہتے رہنا، اس کا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے غیر معذور کی یا اس سے کم عذر والے کی نماز نہیں ہوتی، جیسا کہ بہارِ شریعت میں لکھا ہے۔پیرکی انگلیاں کٹی ہونے کی وجہ سے اس قسم کا معذور نہیں ہے، وہ اپنے قدم زمین پرلگا کرنماز پڑھے گاتو اس کی نماز بھی ہوجائے گی اور اس کی امامت بھی صحیح ہے۔ انگلی موڑنے کا حکم اس کے لیے ہے، جس کے پیر میں انگلی ہو اور جس کے پاؤں میں انگلی ہی نہیں ہے، اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے، (وقارالفتاویٰ،جلددوم،ص:179،مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)‘‘۔

لہٰذا حافظ صاحب مذکور کی اقتدا میں نماز جائز ہے اور یہ امامت کے لائق ہیں، نیز کسی کی جسمانی ساخت میں پیدائشی نقص ہو یا کسی حادثے کے نتیجے میں نقص پیداہوگیاہو ، اس پر اسے ملامت نہیں کرنا چاہیے ،یہ قدرت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے ،البتہ اگر یہ محسوس ہوکہ لوگ کراہت محسوس کرتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اسے مستقل امام مقرر نہ کریں ،مگر لوگوں کو بھی چاہیے کہ اپنے ذوق کو شریعت کے تابع رکھیں ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین