• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے پلاک (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر) نے ملک کے معروف گلوکار ، فنکار اور لوک گلوکارشوکت علی کو پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا۔ اس تقریب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہر دور اور موجودہ دور کے ہر شعبہ ہائے زندگی کے معروف لوگ، شعراء کرام، فنکار، کالم نگار، صحافی، گلوکار اور اینکرپرسن شریک تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ پلاک کاآڈیٹوریم دنیائے فن اور قلم کاروں سے بھرا ہوا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ لوگ شوکت علی سے واقعی پیار کرتے ہیں۔
اس تقریب میں پلاک کی ڈائریکٹر ڈاکٹرصغریٰ صدف نے بغیر بتائے اچانک حاضرین محفل سے شوکت علی کے بارے میں تاثرات لئے۔ یہ وہ تاثرات تھے جو واقعی لوگوں کے دلوں کی آواز تھی۔ خالد عباس ڈار نے بڑا تاریخی فقرہ کہا جو حاضرین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ خوب تالیاں بجا کر اس کی پسندیدگی کااظہار کیا۔ اگرچہ انہوں نے یہ تمام باتیں پنجابی زبان میں کہیں یہ ساری تقریب ہی پنجابی زبان میں تھی۔انہوں نے کہا ”شوت علی توں بڑا خوش قسمت ایں۔ تیرا عرس تیری زندگی وِچ منایا جاریا اے۔ ورنہ لوگ تے مرن توں بعد ہی عرس کردے نئیں“
واقعی ہمارے ہاں ایک عجیب روایت ہے کہ ہم مرنے والے کی یاد میں بڑے بڑے تعزیتی ریفرنس، تقریبات اور محفلیں سجاتے ہیں۔ چاہئے تو یہ کہ جن لوگوں نے اپنی اپنی فیلڈ میں مدت بسر کردی اور اپنے خون سے اپنے شعبہ کی آبیاری کرتے رہے ان کے عرس ان کی زندگی میں ہی منائے جائیں تاکہ وہ بھی خوش ہوسکیں کہ انہیں لوگ کتنی محبت، چاہت، عزت اور پیار دیتے ہیں بعد مرنے کے اسے کیا پتہ کہ لوگ اسے کتنی عزت دے رہے ہیں۔ معروف اینکرپرسن سہیل وڑائچ نے اس تقریب میں بالکل درست کہا کہ ملک کے تمام وہ افراد جو اپنے اندرایک ادارے کا درجہ رکھتے ہیں وہ سب آج ایک چھت تلے موجود ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔
شوکت علی نے تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید سے کہا کہ وہ دوسرے صوبوں میں بھی شوکت علی تلاش کریں۔ واقعی اس ملک میں کئی شوکت علی ہیں جن پر زمانے کی اور ہماری بے حسی کی گرد پڑ چکی ہے ۔ان کو ہم نے تلاش کرنا ہے۔ ان کی خدمات، تجربات اور باتوں سے آج کی نسل کو ہم نے آگاہ کرنا ہے۔ یہ نہ ہو کہ یہ لوگ اپنی شناخت بھول جائیں اور لوگ پوچھتے پھریں یہ کون ہیں؟ اور وہ لوگوں سے پوچھتے پھریں کہ ہم کون ہیں؟ اورجیسے اس تقریب میں فلم سٹار حبیب کو سٹیج پربیٹھے دیکھ کرایک نوجوان پوچھ رہا تھا یہ کون ہے؟ ہم نے ان کی کوئی فلم نہیں دیکھی حالانکہ فلم سٹار جوانی میں بہت خوبصورت ہیرو تھے اورکئی کامیاب فلمیں ان کے نام سے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ ہم پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اپنے دوست پروفیسر ڈاکٹر ندیم حیات ملک کو مل کر باہر پارکنگ میں آ رہے تھے تو سڑک پر دور سے ایک بزرگ چلتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔گیارہ بجے کاوقت تھا۔ قریب آئے تو دیکھا کہ تحریک پاکستان کے ایک نامور کارکن، سابق مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات و خزانہ (ایوب خان کے دور میں مرکزی وزیر ہوا کرتے تھے۔ ویسے شجاعت ہاشمی نے بڑا درست کہا ہے کہ اب تو وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کو صرف وفاقی وزیر نشریات ہی کہنا چاہئے اطلاعات تو اس کے پاس ہوتی نہیں اطلاعات تو کوئی اور ادارے دے رہے ہوتے ہیں) سید احمد سعید کرمانی انتہائی گہری سوچوں میں گم، اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر اور شاید اب وہ زمانے سے بھی بے خبر ہوچکے ہیں، چلے جارہے تھے۔ ہم نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ کچھ دیر دیکھتے رہے پھر یاد آیا اور ہمارا نام لیا۔ کرمانی صاحب کے خاندان کیساتھ ہمارے خاندان کے تعلقات 1935سے چلے آرہے ہیں۔میرے والد اور احمد سعید کرمانی ایک ہی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم اور د وست تھے۔ میرے دادا پنجاب کے پہلے مسلمان جج تھے۔ اس حوالے سے مولوی ابراہیم ناگی (میرے دادا) اور احمد سعید کرمانی کے قانون دان کے طور پر بھی مراسم تھے۔ جو لوگ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول (لوئر مال بڑا تاریخی سکول تھا۔ یہاں سے بڑے بڑے نامور لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ آج تباہ حال ہوچکا ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ گوروں نے یہ سکول بنایا تھا اور ہم نے حسب ِ روایت اور اداروں کی طرح اس کوبھی تباہ کر دیا) اس سکول کے جونیئرماڈل سکول میں جو لوگ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت پڑھے ہیں (اس زمانے میں پہلی سے پانچویں جماعت میں اس سکول میں لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بتاتا چلوں کہ کوئین میری کالج کے سکول سیکشن میں بھی لڑکے پہلی سے پانچویں جماعت تک پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہ سکول لڑکیوں کا تھا۔ ذوالفقار کھوسہ سابق گورنر پنجاب اوراعتزاز احسن بھی کوئین میری سکول سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اب وہ سکولز رہے نہ وہ اساتذہ رہے۔ وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں پر میڈم شائستہ کرمانی (اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ،ابھی دو تین برس قبل فوت ہوئی ہیں) بڑی اصولوں اور سخت ڈسپلن کی قائل تھیں اور ہماری طرح بے شمار سٹوڈنٹس نے ان کے ڈنڈے کھائے ہیں۔ وہ احمد سعید کرمانی کی اہلیہ تھیں۔ احمد سعید کرمانی صاحب سے سڑک پر کھڑے کھڑے چند باتیں ہوئیں مگر باتوں میں کوئی ربط نہیں تھا۔ بس جس طرح پاکستان کی کسی حکومت کی پالیسی میں کوئی تسلسل نہیں اسی طرح وہ بے تسلسل باتیں کر رہے تھے۔ ذہن بکھرا بکھرا تھا شاید اس ملک کے حالات دیکھ کر یہاں پر آنے والے حکمرانوں کو دیکھ کر ان کا ذہن اب منتشر ہو چکا تھا۔
آج سے چندبرس قبل جب وہ میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے سیمیناروں میں آتے تو کیا جوش و ولولہ سے تحریک ِ پاکستان کے واقعات سنایا کرتے۔ ہم نے آج سے کئی برس قبل ایک فیچر لکھا کہ قائداعظم لاہور میں کہا ں کہاں ٹھہرتے رہے تو احمد سعید کرمانی صاحب ہماری گاڑی میں شہر کے ان علاقوں میں گئے اورگاڑی سے اتر کر کسی نوجوان کی طرح انہوں نے ہمیں شیرانوالہ اورسٹیشن کے وہ گھر دکھائے جہاں کبھی قائداعظم تشریف لائے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ اکثر ملاقاتوں میں قائداعظم کا ، شاعر مشرق علامہ اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، نواب بہادر یار جنگ اور عبدالرب نشتر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ایک خزانہ بیان کیا کرتے تھے۔ پتہ نہیں ان کے بیٹے ڈاکٹر آصف سعید کرمانی نے اپنے والد کی ان یادداشتو ں کو محفوظ بھی رکھا ہے یا ہیں۔
آج اگر ہمارے درمیان ”ساتھیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن“ ترانہ گانے والا شوکت علی موجود ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ یہ وہ ترانہ ہے جس کے بارے میں بھارت کے سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری نے کہا تھا کہ اس ترانے کو بند کیا جائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا کہ پنجابی زبان کے فروغ اورثقافت کے لئے کام کرنا ہوگا بہت اچھی بات ہے مگر یہاں تو ایسے سکولز ہیں جہاں پر اردو بولنے پر بھی پابندی ہے پنجابی کہاں سے فروغ پائے گی۔چلتے چلتے ایک بات جو لوگ برطانوی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کرنے آ رہے ہیں انہوں نے اس وقت کیوں نہیں شہریت چھوڑی جب وہ برطانوی پارلیمینٹ کے ممبر تھے۔ تب انہیں پاکستان کی خدمت کرنے کا خیال نہیں آیا؟ پانچ سال یہاں گورنری کریں گے۔ پھر برطانیہ دوبارہ اعزازی شہریت دے دے گا۔ ہیرو بھی بن جائیں گے اور تاریخ میں نام بھی کرلیں گے آخر میں پھرعرض ہے کہ زندوں کا عرس منائیں مرنے والوں کا عرس تو سبھی مناتے ہیں۔
تازہ ترین